شریف خاندان کی دولت قومی خزانے میں جمع کرائی جائے

156

مظفر ربانی
شریف خاندان اس بات کا ہمیشہ دعویدار رہا ہے کہ ان کے لوہے کے کاروبار میں ان کے واحد بزرگ مرحوم میاں محمد شریف کی انتھک محنت کا ثمر ہے اور پاکستانی قوم ان کی اس بات کو درست مانتی رہی تا آنکہ پاناما کا بھانڈا پھوٹ گیا۔ابھی جماعت اسلامی اور دیگر افراد پاکستان سے کرپشن کے خاتمے کی جدو جہد ہی کر رہے تھے کبھی عدالت عظمیٰ کا رخ کرتے کبھی سیاسی جلسوں میں اپنے دل کی بھڑاس نکالتے کبھی قوم کو یقین دلاتے کہ کرپشن کے خاتمے کے بغیر یہ ملک ترقی نہیں کر سکتا لیکن ان سب کاوشوں کے باوجود بیل منڈھے نہیں چڑھ رہی تھی کہ اچانک پاناما لیکس کا ہنگامہ کھڑا ہو گیا اور دنیا کے ہزاروں عام اور سیکڑوں خاص افراد اس بھونچال کی زد میں آ گئے کچھ نے استعفا دینے میں ہی عافیت جانی کچھ نے پارلیمنٹ سے کلین چٹ لینے کی کوشش کی مگر پاکستان میں یہاں کے حکمراں پورے خاندان سمیت اس زلزلے کی لپیٹ میں آگئے پھر کچھ درباریوں نے اس خاندان کو بچانے کی کوشش کی لیکن وہ شاید نہیں جانتے تھے کہ وہ ایک ایسی دلدل میں پھنس چکے ہیں جس میں جتنا ہاتھ پائوں ماریں اتنا ہی اندر دھنستے جائیں گے۔
نواز شریف خاندان کے سیاسی حریفوں کے لیے پاناما لیکس کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں تھی اور انہوں نے سیدھے عدالت عظمیٰ کا رخ کیا پہلے پہل تو بات کچھ بنتی نظر نہ آئی مگر جب قوم کی انگلیاں ایک ہی طرف اٹھتی محسوس ہوئیں تو عدالت عظمیٰ نے اس کیس کو دونوں ہاتھوں سے لے لیا اور پھر حق و صداقت اور انصاف کا بول بالا کرنے کی ٹھان لی قریبا‘‘۔ سال بھر کے بعد عدالت عظمیٰ اس نتیجے پر پہنچی کہ واقعی یہاں تو بہت گڑ بڑ ہے اور جتنا گاد سطح پر نظر آ رہا ہے اس کہیں زیادہ تلچھٹ تلے موجود ہے اس لیے بیرون عدالت ایک اور مجاز فورم کا قیام عمل میں لایا گیا جس کو جے آئی ٹی یعنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کا نام دیا گیا۔ پہلے پہل تو حکمران اس کو روایتی تحقیقاتی ٹیم سمجھ بیٹھے اسی لیے مٹھائیاں تقسیم کی گئیں لیکن ان کی غلط فہمی جلد ہی دور ہو گئی اور جوں جوں وقت گزرتا گیا چہروں کی رنگت بدلتی رہی اور ان کو نوشتہ ٔ دیوار صاف نظر آنے لگا اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے جوں ہی اپنی رپورٹ جمع کرائی اسی لمحے عدالت عظمیٰ کی کارروائی شروع ہو گئی۔ میڈیا رپورٹنگ کے مطابق شریف خاندان نے پوچھے گئے سوالات کے تسلی بخش جوابات نہیں دیے اور جو دستاویزات جمع کرائی گئیں وہ یا تو غیر متعلقہ تھیں یا جھوٹی تھیں جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ شریف خاندان اپنا مقدمہ لڑنے میں ناکام رہا اور یہ تو اس وقت واضح نظر آ رہا تھا کہ جب عدالت عظمیٰ کی کارروائی جاری تھی کہ ایک کے بعد ایک وکیل آزمایا جاتا رہا مگر سب کانوں کو ہاتھ لگا لگا کر عدالت عظمیٰ سے نکلتے رہے کہ اتنی زیادہ لوٹ مار کو سچ اور حق حلال کی کمائی ثابت کرنے کے لیے ان کا قانونی علم ناکافی تھا اب جب کہ یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچنے والی ہے کہ شریف خاندان نے اس ملک کی دولت کو اپنے سرکاری عہدوں کے ناجائز استعمال سے گزشتہ پینتیس سال میں بے دریغ لوٹا ہے جس کے واضح ثبوت بھی موجود ہیں اور پورا خاندان مع سمدھیانوں کے کیسے اربوں پتی بن چکا ہے یہ بات تو میاں نواز شریف ببانگ دہل کہہ چکے ہیں کہ کوئی اتنا بیوقوف نہیں ہوتا کہ چوری کا پیسہ اپنے نام رکھے شاید اسی فارمولے پر عمل کرتے ہوئے انہوں نے اپنی تمام دولت بیٹوں، بیٹیوں، سمدھیوں، بھانجوں، بھتیجوں اور ہر اس شخص کے نام رکھی جس کا تھوڑا بہت بھی تعلق میاں نواز شریف کے ساتھ رہا ہو۔ کیا دنیا بھر میں یہ قانون رائج نہیں کہ جب کسی بڑے کی دولت کے بارے میں ثابت ہوجائے کہ اس نے ناجائز دولت کمائی ہے اس سے ساری دولت واپس لے کر قومی خزانے میں جمع کرائی جائے تاکہ قوم کو اس کا چوری شدہ مال بازیاب کرا کر اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کا موقع فراہم کیا جائے۔