ٹریڈ پالیسی کی خامیاں فوراً دور کی جائیں،میاں زاہد حسین

78

کراچی(اسٹاف رپورٹر) پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر ،بزنس مین پینل کے سینئر وائس چیئر مین اورسابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ حال میں اختتام پذیر ہونے والے مالی سال کا تجارتی خسارہ 32.6 ارب ڈالر کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گیا ہے جبکہ درآمدات بھی ملکی تاریخ میں پہلی بار 53 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں جو تشویشناک ہے۔ جب موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالا تو اس وقت تجارتی خسارہ 20.44 ارب ڈالر تھا۔مقامی اور 74 ارب ڈالر سے زیادہ کے غیر ملکی قرضوں اور سود کی ادائیگی کے لیے بجٹ میں 1400ارب روپے رکھے گئے ہیں جس سے نہ صرف قرضوں پر بڑھتے ہوئے انحصار کا پتہ چلتا ہے بلکہ یہ کم بھی پڑ سکتے ہیں۔میاں زاہد حسین نے ایک بیان میں کہا کہ حکومت تمام تجارتی اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی ہے جس سے زرمبادلہ کے ذخائر پر دبائو بڑھ گیا ہے۔ تجارتی پالیسی کی خامیوں کو ہنگامی بنیادوں پر دور کرنے اور برآمدی شعبہ میں حقیقی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ تجارتی خسارہ حکومت کے اندازے سے 12 ارب ڈالر زیادہ نکلا جبکہ برآمدات 20.44 ارب ڈالر کی سطح تک گر گئیں جس کا سرکاری ہدف 24.8 ارب ڈالر تھا۔اس کی تمام تر ذمہ داری نااہل برآمدی منیجرز پرعائدہو تی ہے جنہوںنے تین سال تک نمائشوںمیںوقت ا و ر پیسہ ضائع کیااو ر کا رکردگی صفر رہی جس کے نتیجے میں گزشتہ سال کی برآمدات درآمدات کے مقابلہ میں 259 فیصد کم رہیں۔یورپی یونین کے لیے ڈیوٹی فری برآمدات کے باوجود تمام ملکی برآمدات جی ڈی پی کا صرف 6.7 فیصد ہیں۔ جنھیں بڑھانے کی تمام کوششیں ناکام ہو گئی ہیں۔انھوں نے کہا کہ حکومت اپنے وسائل میں رہتے ہوئے برآمدی شعبہ کو سہولیات فراہم کر رہی ہے جس میں سستی بجلی وغیرہ شامل ہیں مگر یہ ناکافی ہے جبکہ 180 ارب روپے کے برآمدی پیکج پر عمل درآمد نہ ہونے اور ریفنڈز کی ادائیگی میں تاخیر نے بھی برآمدات کو نقصان پہنچایا ہے۔ادھر سیاسی عدم استحکام نے ا سٹاک ایکسچینج کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے جس سے مقامی و غیر ملکی سرمایہ کاروں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے مگر ابھی ایس ای سی پی کو اس سنگین صورتحال میں مداخلت کی ضرورت نہیں ہے۔ حکومت برآمدات کے ساتھ ترسیلات کے شعبہ کو بھی ترقی دے تاکہ مسائل سے بچا جا سکے۔