پاک بھارت کشیدگی کے رنگ اور رُخ

250

Arif Beharپاکستان اور بھارت تعلقات کی ایک ایسی بند گلی میں جا پھنسے ہیں جہاں سے مستقبل قریب میں باہر نکلنے کی کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی۔ ماضی میں جب بھی دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں کشیدگی در آتی اور مسائل لاینحل دکھائی دیتے تو امریکا سے ایک دہلی اور اسلام آباد کے لیے ٹیلی فون کالیں آتیں یا ایک وفد آکر دونوں کے تعلقات کی گاڑی کو دوبار پٹڑی پرڈال دیتا۔ اب امریکا نے خود کو بھارت کے ساتھ مکمل طور پر بریکٹ کر کے پاکستان پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت محدود تر کردی ہے۔
بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے کہا ہے کہ علاج کی غرض سے بھارت آنے والوں کو صرف اسی صورت میں ویزہ دیا جائے گا جب ان کا نام پاکستان کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز کی طرف سے تجویز کیا جائے گا۔ سشما سوراج کا کہنا تھا کہ انہوں نے انسانی ہمدردی کے تحت کلبھوشن یادیو کی ماں کو ویزہ جاری کرنے کے لیے سرتاج عزیز کو ذاتی خط لکھا مگر سرتاج عزیز نے اس خط جواب بلکہ اس کی وصولی کی رسید تک دینا گوارا نہیں کیا۔ سشما سوراج کا کہنا تھا اب پاکستان کو اپنے شہریوں کے مفاد میں بھارت آنے کے خواہش مندوں کے نام تجویز کرنا چاہیے۔ یوں لگتا ہے کلبھوشن یادیو کی گرفتاری سے بھارتیوں کے اوسان خطا ہو گئے ہیں وہ پاکستان کے ساتھ ہر معاملے اور تعلق کو کلبھوشن یادیو کے ساتھ جوڑ رہا ہے۔ پہلے ماہی گیروں کی رہائی کے لیے کلبھوشن یادیو کی رہائی کی باتیں کی گئیں۔ پاک فوج کے ایک ریٹائرڈ کرنل کو جھانسا دے کر نیپال بلایا اور وہاں سے غائب کر دیا گیا۔ عمومی تاثر یہی تھا کہ بھارت نے یہ قدم کلبھوشن یادیو کے مسئلے پر اپنی سودے بازی کی صلاحیت کو مضبوط بنانے کی خاطر اُٹھایا تھا مگر اس میں بھی اب بھارت کو ناکامی ہوئی۔ اب بھارت سے علاج کرانے کے خواہش مند پاکستانیوں کے ویزے کے معاملے پر ایک بار پھر بھارت نے کلبھوشن کلبھوشن کھیلنا شروع کر دیا ہے۔ یہ خالص ایک انسانی مسئلہ ہے جس پر ویزہ اس وقت تک معمول کا معاملہ ہے جب تک دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہیں۔ ابھی دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات پر کوئی زد نہیں پڑی۔ ایسے میں مریضوں کے ویزے کو وزیر خارجہ کے سفارشی خط سے مشروط کرنا اور ساتھ ہی اس انسانی مسئلے کے ساتھ کلبھوشن یادیو کو جوڑنا سراسر بلیک میلنگ ہی ہے۔ کلبھوشن یادیو کوئی عام فرد نہیں۔ اگر وہ عام جاسوس ہوتا تو بھی شاید معاملہ اس قدر حساس نہ ہوتا۔ وہ ایک ایسے نیٹ ورک کا نگران اور سرپرست تھا جو پاکستان میں دہشت گردی کے لاتعداد واقعات میں ملوث ہے اور جس نیٹ ورک کی کارروائیوں کا مقصد پاکستان کو توڑنا تھا۔ اس طرح یہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے۔ کلبھوشن کے ساتھ وہی ہونا چاہیے جو دہشت گردی میں ملوث لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے مگر بھارت ہر معاملے کو ایک خطرناک دہشت گرد کے ساتھ جوڑ کر انسانیت کی دھجیاں اُڑا رہا ہے۔ اب جاں بہ لب مریض اور خطرناک دہشت گرد ایک ہی ترازو میں تُلنے لگے ہیں یہ کشیدہ تعلقات کی آخری حد ہے۔
اس کشیدگی کا ایک پہلو اس وقت سامنے آیا جب تاجکستان میں پاکستان، تاجکستان، افغانستان پر مشتمل سہ ملکی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان سے بھارت کو افغانستان تک زمینی اور تجارتی راہ داری دینے کا مطالبہ کیا۔ جس کے جواب میں وزیر اعظم میاں نوازشریف نے اشرف غنی کو ٹکا سا جواب دیتے ہوئے کہا کہ تنازع کشمیر کے حل تک بھارت کو یہ سہولت نہیں سے سکتے۔ بھارت کشمیری بھائیوں پر ظلم کرے اور ہم اسے تجارتی راہ داری دیں ایسا ممکن نہیں۔ اشرف غنی کا بھارت کو تجارتی راہ داری دینے کا مطالبہ درحقیقت بھارت اور را کی زبان بولنے کے مترداف ہے۔ پاکستان نے افغانستان کو اپنا مال بھارت پہچانے کی خصوصی اجازت اور سہولت دے رکھی ہے مگر بھارت کو جوابی طور پر یہ سہولت حاصل نہیں۔ افغان حکمران بھارت کے غم میں گھل رہے ہیں۔ انہیں بھارتی فائدے اور نقصان کی فکر کھائے جا رہی ہے۔
امریکا نے بھارت کو افغانستان میں جس قدر مضبوط بنایا ہے اس صورت حال میں افغان حکومت کی فیصلہ سازی کی صلاحیت پر بھی بھارت کا غلبہ دکھائی دیتا ہے یوں لگ رہا ہے کہ افغانستان کا اپنا کوئی نفع ونقصان ہی نہیں بلکہ وہ خطے کے تمام مسائل اور معاملات کو بھارت کی عینک سے دیکھنے پر مجبور ہے۔ اس دوران ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے مختصر عرصے میں دوسری بار کشمیر اور وہاں ہونے والے ظلم ستم کی بات کی ہے۔ آیت اللہ علی خامنہ ای نے پہلی بار عید الفطر کے موقع پر خطبہ دیتے ہوئے کشمیر میں مظالم پر تشویش کا اظہار کیا۔ اب دوسری بار انہوں نے اپنے ملک کی عدلیہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدلیہ کو کشمیر سمیت دوسرے عالمی مسائل کا قانونی انداز سے جائزہ لے کر ان پر ایک قانونی موقف اپنانا چاہیے۔ ایرانی راہبر نے جب عید الفطر کے موقع پر کشمیر میں مظالم کی بات کی تھی تو سری نگر سے اس آواز کا زبردست خیرمقدم کیا گیا تھا اور حریت لیڈروں نے پاکستان پر ایران سے اپنے تعلقات میں بہتری لانے پر زور دیا تھا۔ کئی دن کے وقفے کے بعد ہی سہی مگر پاکستان کے دفتر خارجہ نے ایران کے سپریم لیڈر کے کشمیر کے حوالے سے بیان کا خیرمقدم کیا۔ ایران ایک مدت تک کشمیریوں کی تحریک آزادی کا کھلا موید اور حامی رہا ہے۔ بانی انقلاب آیت اللہ خمینی کی زندگی میں ایران کی سرکاری کشمیر پالیسی بہت واضح اور دوٹوک تھی۔ پاکستان کے بعد کشمیریوں کی حمایت کرنے والا ملک ایران ہی تھا۔ ان کی رحلت کے بعد ایران کی پالیسی میں تبدیلی آتی چلی گئی۔ ایران عالمی اور علاقائی سیاست میں پاکستان سے دور اور بھارت کے قریب ہوتا چلا گیا۔ پاکستان اور ایران میں دوریاں بڑھ گئیں۔ کم وبیش دو عشرے اسی ماحول میں گزر گئے۔ اب ایک بار علاقائی اور عالمی منظر تبدیل ہو رہا ہے۔ ایران، پاکستان اور سعودی عرب کا مخمصا بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ایران بھارت کے قریب ہے مگر بھارت امریکا کی گود میں بیٹھ چکا ہے ایران امریکا کے نشانے پر آچکا ہے۔ بھارت کے مقاصد کو تقویت دینا امریکا کے مقاصد کی ہی تکمیل ہے۔ پاکستان سعودی عرب کے قریب ہے اور سعودی عرب امریکا کا اتحادی ہے اور بھارت امریکا کا اسٹرٹیجک شراکت دار۔ اسی طرح سعودی عرب پاکستان کو اپنے ساتھ چلانا چاہتا ہے مگر پاکستان امریکی کیمپ کو چھوڑنے کا حتمی فیصلہ کر چکا ہے۔ ان عجیب اور مخمصوں بھری صورت حال میں ہر ملک کچھ نئی پالیسیاں تشکیل دینے پر مجبور ہے۔ ایران از خود کشمیر سے بہت گہرے ثقافتی اور تاریخی روابط رکھتا ہے۔ ایران سے آنے والے میر سید علی ہمدانی جیسے مسلم اکابرین نے کشمیر کے اسلامی تشخص کو یہاں کے عوام کے ایمان وعقائد کی اصلاح میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ فارسی زبان نے بھی کشمیر ی زبان پر علم وادب پر اپنے انمٹ نقوش قائم کیے ہیں۔ اس لیے طویل خاموشی کے بعد ایران سے سپریم لیڈر جیسی طاقتور شخصیت کی طرف سے کشمیر کا تذکرہ اس اہم اسلامی ملک کی کشمیر پالیسی کی تشکیل نو اور ترتیب نو کا پتا دے رہا ہے۔

عارف بہار