ایمل کاسی صوبہ بلوچستان کا نوجوان پاکستانی ایک طویل عرصے سے امریکا میں رہائش پزیر تھا، یہ اس وقت کی بات ہے جب نواز شریف دوسری بار وزیر اعظم بنے تھے۔ 1993 میں ایمل کاسی پر دو امریکی سی آئی اے کے افسران کے قتل کا الزام عائد کیا گیا ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ جھوٹا الزام تھا لیکن اس قتل کوئی تفصیل ابھی تک سامنے نہیں آئی۔ ایمل کانسی کسی طرح پاکستان واپس آگیا، ملک کے مختلف شہروں میں رہنے کے بعد وہ بلوچستان چلا گیا۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ امریکا جیسی سپر پاور والے ملک میں کوئی امریکیوں کو قتل کرے اور پھر وہ پوری امریکی انتظامیہ کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اپنے ملک واپس آجائے۔ چنانچہ امریکا نے اپنی پوری قوت ایمل کانسی کو ڈھونڈنے اور تلاش کرنے میں لگادی پاکستان میں نواز شریف صاحب کے اوپر دبائو تھا ایک امریکی مجرم آپ کے یہاں چھپا ہوا ہے اسے گرفتار کرانے میں امریکا کے ساتھ تعاون کیا جائے، چنانچہ ملک کی تمام ریاستی ایجنسیوں کو ایمل کانسی کی تلاش پر لگادیا گیا۔ کئی برس ایمل کانسی اکبر بگٹی کی پناہ میں رہا جب تک وہ اکبر بگٹی کی پناہ میں رہا، یہ بات کسی کو نہیں معلوم کہ اکبر بگٹی پر کسی کا دبائو تھا یا ایمل کانسی خود اکبر بگٹی کی پناہ سے نکل گیا اور مختلف جگہوں پر بھیس بدل بدل کر رہنے لگا۔
یہ ویسے بڑی دلچسپ بات ہے کہ ہماری سول قیادت اور اسٹیبلشمنٹ یا ایجنسیوں میں اکثر تنائو رہتا ہے اور بالخصوص نواز شریف صاحب کے دور اقتدار میں اس طرح کی صورت حال زیادہ شدت سے محسوس ہوتی ہے لیکن اس سے بڑی دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکی اطاعت میں ہماری سول قیادت اور تمام ایجنسیاں ایک صفحے پر نظر آتی ہیں بلکہ اس صفحے پر بھی ہر ایک اپنے آپ کو اوپر رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔
شدید امریکی دبائو کے پیش نظر ہمارے ملک کی تمام ایجنسیاں ایمل کانسی کو ڈھونڈنے میں لگ گئیں پھر کئی برسوں کی تگ ودو کے بعد 1997میں کسی دن ڈیرہ غازی خان کے ایک ہوٹل میں جہاں ایمل کانسی جس کے چہرے پر ایک لمبی ڈاڑھی اور سر پر پگڑی تھی بیٹھا چائے پی رہا تھا کہ اسے گرفتار کرلیا گیا اور ہمارے حکمرانوں نے بڑے اہتمام سے ایمل کانسی کو امریکا کے حوالے کردیا پھر اس پر امریکا کی ایسی ریاست میں مقدمہ چلایا گیا جہاں پر سزائے موت کا قانون نافذ تھا کچھ عرصے مقدمہ چلنے کے بعد اسے موت کا انجکشن لگا دیا گیا۔
پاکستانی عوام کے جذبات ایمل کانسی کے ساتھ اس لیے تھے کہ امریکا نے ہمیں جتنے زخم لگائے ہیں اتنے تو ازلی دشمن بھارت نے بھی نہیں لگائے ہوں گے۔ پھر یہ کہ امریکا کا عدالتی نظام بھی مسلمانوں کے حوالے سے تعصب پر مبنی رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ جب کوئٹہ میں اس کی نماز جنازہ ہوئی تو کہتے ہیں کہ وہ بلوچستان کی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع تھا۔
کاش کے ریمنڈ ڈیوس اپنی کتاب میں ایمل کانسی کا تذکرہ بھی کردیتا تو بڑا اچھا ہوتا کہ اس سے ہمارے حکمرانوں کی غلامانہ ذہنیت کا اندازہ ہوجاتا ایمل کانسی کے وقت نواز شریف صاحب وزیر اعظم تھے اور ریمنڈ ڈیوس کے وقت آصف زرداری ملک صدر تھے۔
غیرت مند قومیں اور غیرت دار حکومتیں کیسی ہوتی ہیں اس کا یک واقعہ سن لیں برازیل کا ایک تاجر تجارت کے سلسلے میں امریکا گیا اس نے پہلے سے سن رکھا تھا کہ امریکا کے تمام ائر پورٹوں پر تلاشی لی جاتی ہے موزے اور بنیان تک اتروائے جاتے ہیں وہ بہت پریشان تھا ائر پورٹ پر تلاشی کی لائن میں وہ بھی لگ گیا جب اس کا نمبر آیا تو اس نے ہمت کرکے تلاشی دینے سے انکار کردیا وہاں تو ایک ہنگامہ مچ گیا ائرپورٹ کے متعلقہ افسر نے اس کے پاسپورٹ پر مہر لگا کر اسی وقت ڈی پورٹ کردیا اگلی فلائٹ سے وہ واپس برازیل پہنچ گیا اپنے ملک پہنچ کر اس نے امریکا کے خلاف سخت بیان دیا پھر برازیل کی حکومت نے ایک قانون پاس کیا جس کے تحت یہ فیصلہ کیا گیا جو بھی امریکی برازیل آئے گا برازیل کے تمام ائرپورٹس پر اس کی اسی طرح تلاشی لی جائے گی جس طرح امریکا میں لی جاتی ہے۔ پھر یہ ہونے لگا کہ ہر برازیلی ائر پورٹ پر تمام ممالک کے لوگ تو بغیر تلاشی کے نکل جاتے لیکن امریکیوں کو تلاشی دینا پڑتی، امریکا نے اس پر سخت احتجاج کیا اور برازیل سے اس قانون کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا لیکن برازیل کی حکومت نے امریکا کا مطالبہ تسلیم نہیں کیا تا آنکہ امریکا نے باقاعدہ برازیل سے اپنے رویے کی معافی مانگی تب جا کے یہ تنازع ختم ہوا۔
ریمنڈ ڈیوس نے اپنی کتاب کے ٹائٹل پر جماعت اسلامی کے ایک مظاہرے کی تصویر دی ہے اور اس میں اس بینر کو نمایاں کرکے دکھایا گیا جس میں ریمنڈ ڈیوس کی پھانسی کا مطالبہ کیا گیا ہے اور نیچے جماعت اسلامی لکھا ہوا ہے۔ اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ جماعت اسلامی نے پورے ملک میں مظاہرے کیے اور ایک بھرپور مہم مجھے پھانسی کی سزا دلانے کے لیے چلائی یہاں تک کہ مجھے اس بات کا خوف ہونے لگا کہ جو مسلح اہل کار میری حفاطت پر مامور ہیں ان ہی میں سے کوئی مجھے نہ ماردے بس میرے سامنے میرے بیوی بچے کا چہرہ سامنے آتا اور یہی تڑپ تھی کسی طرح اپنے ملک ان کے پاس پہنچ جائوں۔ ریمنڈ ڈیوس نے جب پوری دس گولیاں دو پاکستانیوں کے جسم میں اتاریں اس وقت اسے یہ خیال نہ آیا ان کے بھی بیوی بچے ہو ں گے۔
ریمنڈ ڈیوس نے یہ کتاب لکھ کر پاکستانی قوم پر بڑا احسان کیا ہے کہ کہ قوم کے سامنے کھرے اور کھوٹے کی پہچان ہو گئی کہ کون سی سیاسی جماعتیں ہیں جو امریکی کاسہ لیسی میں ایک دوسرے سے بڑھ کر مقابلہ کرتی ہیں اس وقت مرکز میں پی پی پی کی حکومت تھی اور صوبے میں ن لیگ کی حکومت تھی ان دونوں سیاسی جماعتوں نے حسب توفیق بلیک واٹر کے آدمی کو بچانے کی کوشش کی، اس لیے کہ ریمنڈ ڈیوس کا تعلق بلیک واٹر کی تنظیم سے بتایا جاتا ہے پھر یہ کہ ریمنڈ ڈیوس ان دو بے قصور لوگوں کا قاتل ہی نہیں بلکہ امریکی سفارت خانے سے جو گاڑی اس کو بچانے کے لیے آرہی تھی اس نے بھی ایک راہ گیر کو ٹکر ماری جو اسی وقت ہلاک ہو گیا اور پھر ان دو مقتولین میں سے ایک کی بیوی شازیہ نے خود کشی کرلی کہ وہ سرکار کا یہ دبائو برداشت نہ کرسکی کہ وہ اپنے شوہر کے قتل کی دیت وصول کرلے، وہ اپنے شوہر کے قاتل کے خلاف مقدمہ چلا کر اسے سزا دلوانا چاہتی ہے۔ اس طرح ریمنڈ ڈیوس پر چار افراد کے قتل کا مقدمہ چلنا چاہیے۔
ان مظلومین کی طرف سے جماعت اسلامی نے جس وکیل کا انتظام کیا تھا اس کو مقتولین کے گھر والوں سے ملنے ہی نہیں دیا گیا۔
یہ بھی ایک معما ہے کہ پنجاب حکومت کے خزانے سے دیت کی رقم کے لیے24کروڑ روپے نکالے گئے امریکی حکومت نے دیت کے حوالے سے حکومت پاکستان کو کوئی ادائیگی نہیں کی تھی
یہ خبر بھی آئی کہ مقتولین کے ورثاء کو بارہ بارہ لاکھ روپے دیے گئے ہیں اگر یہ خبر صحیح ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ باقی رقم کہاں گئی ان تمام معاملات کی تحقیقات ہونا چاہیے۔
میری تجویزہے کہ جماعت اسلامی کو اس معاملے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور ریمنڈ ڈیوس کی کتاب کے نکات کی بنیاد پر عدالت عظمیٰ میں ان تمام افراد کے خلاف کوئی قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا جائے جنہوں نے ایک دشمن قوم اور ایک غدار کو بچانے کی کوشش کی تاکہ قوم کے سامنے ان نام نہاد محب وطن لوگوں کا کردار کھل کر سامنے آجائے۔
تحریر : جاوید احمد خان