بھارتی عدالت عظمیٰ نے گئو کشی پر پابندی مسترد کردی

77

نئی دہلی (انٹرنیشنل ڈیسک) بھارت کی عدالت عظمیٰ نے ملک میں بیف کی تجارت پر پابندی کے مجوزہ قانون کو معطل کر دیا ہے۔ مودی سرکار کہتی ہے کہ وہ اس قانون کے ذریعے ملک میں بیف کی غیر قانونی کاروبار کو روکنا چاہتی ہے اور اس کے ذریعے گائے کے ذبح کرنے پر پابندی کے علاوہ بھینسوں اور اونٹوں کی تجارت کو بھی روکنا مقصود ہے۔ عدالت عظمیٰ کے جج نے اپنے حکم میں کہا کہ یہ قانون ملک میں گوشت اور چمڑے کی صنعت کو متاثر کرے گا، جس سے لوگوں کا روزگار بھی متاثر ہوگا۔ تمل ناڈو کی ہائی کورٹ پہلے ہی اس قانون کو معطل کرنے کا حکم جاری کر چکی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے تمل ناڈو ہائی کورٹ کے حکم کو برقرار رکھتے ہوئے حکم دیا کہ یہ عدالتی حکم پورے ملک میں نافذ العمل ہوگا۔ امید کی جا رہی ہے کہ حکومت اب اس مجوزہ قانون میں ترمیم کر کے اسے چند ماہ میں دوبارہ قانون کی شکل دینے کی کوشش کرے گی۔ بھارت کی کئی ریاستیں ملک میں گائے کو ذبح کرنے پر پابندی کی خلاف ہیں۔ بھارت میں زیادہ تر بیف بھینسوں سے حاصل کیا جاتا ہے اور بھارتدنیا کا سب بڑا بیف ایکسپورٹر ہے۔ بھارت سالانہ 4 ارب ڈالر کی مالیت کا بیف ایکسپورٹ کرتا ہے۔ بھارت کے چیف جسٹس جگدیش سنگھ کھیہر نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ حکومتی فیصلے سے لوگوں کے روزگار پر ضرب نہیں لگنی چاہیے۔ بھارت میں گوشت کے کاروبار سے جڑی ہوئی تنظیم آل انڈیا جمعیت القریش کے سربراہ عبد الفہیم قریشی نے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے لوگوں کی فتح قرار دیا ہے۔ بھارت میں بی جے پی کی حکومت کے آنے کے بعد کئی ریاستوں میں بیف کے کاروبار کو روکنے کے لیے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ ریاست گجرات میں رواں برس مارچ میں ایک قانون منظور کیا گیا تھا جس کے تحت بیف کے کاروبار پر عمر قید کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔ دوسری جانب ائر انڈیا نے اخراجات کم کرنے کے نام پر اپنی اندرون ملک پروازوں کے دوران اکانمی کلاس کے مسافروں کو گوشت کے پکوان نہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ بھارتی حکومت قومی ائرلائن ائر انڈیا کو نجکاری کی جانب لے جانا چاہتی ہے اور اسی لیے وہ مقروض ائرلائن کے خرچے کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ تاہم ناقدین نے اس فیصلے کو امتیازی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس تبدیلی سے ائرلائن کے قرضوں کی لاگت اور مالی حالات پر اتنا ہی فرق پڑے گا جو نہ ہونے کے برابر ہو۔ ائر انڈیا کے سربراہ نے فیصلے کا دفاع کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اس پر آنے والے رد عمل پر حیران ہیں۔ تاہم تجزیہ کاروں نے اسے گئورکھشا اور مسلمان دشمنی کا شاخسانہ قرار دیا ہے۔
گئو کشی پر پابندی