شامی مزاحمت کاروں نے جنگی طیارہ اور ہیلی کاپٹر مار گرایا

136

دمشق (انٹرنیشنل ڈیسک) شام میں مزاحمت کاروں نے اسدی فوج کا ایک ہیلی کاپٹر اور جنگی طیارہ مار گرایا ہے۔ شامی اپوزیشن کے حامی ذرائع ابلاغ کے مطابق دونوں واقعات منگل کے روز بادیہ شام کے علاقے میں پیش آئے۔ مزاحمت کاروں نے فضا میں موجود ہیلی کاپٹر کو میزائل سے نشانہ بنایا، جس کے باعث اس میں آگ بھڑک اٹھی اور وہ سین ائربس کی جانب فرار ہوگیا۔ ایک دوسرے واقعے میں مزاحمت کاروں نے بادیہ شام کے علاقے ام رمم میں ایک جنگی طیارہ مار گرایا۔ واضح رہے کہ علاقے میں اسدی فوج اور مزاحمت کاروں کے درمیان شدید جھڑپیں جاری ہیں۔ مزاحمت کاروں نے منگل کے روز اس علاقے میں 2ٹینک اور ایک بکتربند گاڑی بھی تباہ کردی، جب کہ جھڑپوں میں کم از کم 30 اسدی فوجی مارے گئے، جس کے باعث فوج علاقے سے فرار ہونے پر مجبور ہوگئی۔ اسدی فوج کو یہ بھاری جانی اور مالی نقصان پہنچنے کے ردعمل میں روسی فوج نے علاقے میں بم باری شروع کردی ہے۔ دوسری جانب شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی اسٹیفن ڈی مستورا کا کہنا ہے کہ ملک کے لیے نئے آئین کی تیاری میں شامی کردوں کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے اور ان کے نمایندوں کو اس عمل میں شریک ہونے کی اجازت دی جانی چاہیے۔ ڈی مستورا نے یہ بات منگل کے روز روسی خبر رساں ایجنسی کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہی۔ خیال رہے کہ کچھ مغربی سفارت کاروں نے بتایا ہے کہ اقوام متحدہ نے گزشتہ چند ہفتوں کے دوران لوزان میں شامی اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ آئین کے حوالے سے تکنیکی نوعیت کی بات چیت کے 2 ادوار کی میزبانی کی۔ ادھر عالمی بینک نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ شام میں 6 برس سے جاری خانہ جنگی نے ملکی معیشت کو تباہ و برباد کردیا ہے۔ عالمی بینک کی جانب سے پیر کے روز جاری کی گئی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ 6 برس سے جاری خانہ جنگی نے شامی معیشت کو 226 ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا ہے۔ رپورٹ کے مطابق شامی معیشت کو اس خانہ جنگی کی وجہ سے ہونے والا مجموعی نقصان 2010ء میں ملک کی مجموعی قومی پیداوار سے 4 گنا زیادہ ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شام میں 27 فیصد مکانات اور عمارتیں جنگ سے تباہ یا بری طرح متاثر ہوئی ہیں، جب کہ نصف طبی اور تعلیمی سہولیات برباد ہوگئی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق شام میں خانہ جنگی کے پہلے 5 برس میں سالانہ 5 لاکھ 38 ہزار ملازمتیں ختم ہوئیں، جب کہ وہاں نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 78 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ عالمی بینک کے نائب صدر برائے مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقا حافظ غنیم نے کہا ہے کہ شام میں جاری خانہ جنگی نے وہاں سماجی اور اقتصادی ڈھانچے کو ادھیڑ کر رکھ دیا ہے۔ غنیم نے کہا ہے کہ اس خانہ جنگی کے نتیجے میں شامی معاشرے کو چلانے کے ضروری ادارے بھی تباہ ہوچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شام میں تعلیم اور صحت سے متعلق قریب نصف عمارات یا تو تباہ ہو گئیں ہیں یا انہیں شدید نقصان پہنچا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان عمارتوں کی مرمت ایسے ڈھانچوں کو نئے سرے سے کھڑا کرنے سے بھی بڑا چیلنج ہوگی، جب کہ اگر جنگ جاری رہی تو یہ نقصان مزید بڑے مسائل میں تبدیل ہو جائے گا۔ واضح رہے کہ 2011ء سے جاری اس خنہ جنگی میں 4 لاکھ سے4 لاکھ 70ہزار لوگ مارے جاچکے ہیں۔ جب کہ 2010ء کے اندازوں میں جو ملکی آبادی تھی، اس میں سے نصف اندرون ملک بے گھر یا بیرون ملک پناہ گزیں ہیں۔
شام/ جنگی طیارہ