کے الیکٹرک افسران کی من مانیاں‘ پی ایم ٹی ‘ پول‘ تاروں کی تنصیب کیلئے کمپنیاں قائم کرلیں

103

کراچی (اسٹاف رپورٹر)کراچی کے شہریوں کو بدترین لوڈشیڈنگ سے ذہنی اذیت میں مبتلا کرنے والی کے الیکٹرک کے افسران نے پی ایم ٹی ،پول اور تاروں کی تنصیب کے لیے اپنی کمپنیاں قائم کرلیں ۔صارفین کو ان کی درخواستوں پر سیلف فنانس کی مہر لگاکر اپنی من پسند کمپنی سے خریداری کے لیے مجبور کیا جارہا ہے ۔کے الیکٹرک کے سوک سینٹر میں واقع پلاننگ ڈپارٹمنٹ کے شعبہ آر ون ،آر ٹو اور آر تھری کے جی ایم اور آر تھری کے منیجر اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں سرفہرست ہیں ۔ذرائع کے مطابق کے الیکٹرک جہاں اپنی بدانتظامی اور نااہلی کی وجہ سے کراچی کے شہریوں کے لیے عذاب بنی ہوئی ہے وہیں اس کے افسران بھی صارفین کو ذہنی کوفت میں مبتلا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ کے الیکٹرک کے سوک سینٹر میں قائم شعبہ جات آر ون ،آر ٹو اور آر تھری نے کرپشن کی انتہا کردی ہے ۔ صارفین کی جانب سے پی ایم ٹی اور پول کی تنصیب سمیت تاروں کی تبدیل کے لیے دی جانے والی درخواستیں منظوری کے بعد ان تینوں شعبہ جات کے جی ایم اور آر 3کے منیجر کے پاس آتی ہیں ۔مذکورہ دونوں افسران منظوری کے باوجود ان درخواستوں پر عملدرآمد نہیں کرتے بلکہ ان پر سیلف فنانس کی مہر لگادی جاتی ہے ۔درخواست کنندہ کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ ان اشیا کی خریداری کے لیے انجینئرنگ نامی کمپنی سے رابطہ کریں ۔ذرائع نے بتایا کہ ان دونوں افسران کی اس کمپنی میں شراکت داری ہے اورصارفین کی جانب سے اس کمپنی سے خریداری کی صورت میں منافع کا 50فیصد یہ افسران اپنے پاس رکھ لیتے ہیں ۔ذرائع نے بتایا کہ کے الیکٹرک افسران کے طرز عمل سے سب سے زیادہ ملٹی نیشنل کمپنیاں متاثر ہورہی ہیں ۔ان کمپنیوں کے نمائندے جب اپنی طرف سے خریداری کرکے کے الیکٹرک کے ان افسران کے پاس جاتے ہیں تو ان کی خریدی گئی اشیا کو ناقص قرار دے کر مسترد کردیا جاتا ہے ۔واضح رہے کہ کراچی کے اکثر پٹرول پمپس اور انڈسٹریل ایریا میں موجود صنعتی یونٹس اپنی پی ایم ٹیز لگائی ہوئی ہیں ۔ان افسران کی وجہ سے اب وہ شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک طویل عرصہ سے یہ سلسلہ جاری ہے اور کے الیکٹرک کے اعلیٰ حکام کو متعدد مرتبہ سرگرمیوں سے آگاہ کیا جاچکا ہے لیکن اس کے باوجود ان کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی ہے جس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ یہ دونوں افسران ناجائز ذرائع سے حاصل ہونے والی اس آمدنی کا ایک بڑا حصہ اعلیٰ حکام کو بھی پہنچارہے ہیں ۔