پیرس (انٹرنیشنل ڈیسک) یورپی عدالت برائے انسانی حقوق نے بلجیم کی حکومت کی جانب سے عوامی مقامات پر پورے چہرے کے نقاب پر لگائی جانے والی پابندی کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے۔ اس پابندی کے خلاف دو مسلم خواتین نے درخواست دائر کی تھی۔ فرانس کے شہر اسٹراس برگ میں قائم یورپی عدالت برائے انسانی حقوق کی طرف سے سنائے جانے والے اس فیصلے کے مطابق اس پابندی کا مقصد معاشرتی میل ملاپ کو یقینی بنانا اور حقوق اور دیگر افراد کی آزادی کا تحفظ کرنا ہے اور یہ کہ یہ پابندی ایک جمہوری معاشرے کے لیے ضروری ہے۔ بلجیم میں پورے چہرے کے نقاب پر پابندی اس قانون کے تحت عائد کی گئی تھی، جو جون 2011ء میں منظور کیا گیا تھا۔ اس قانون کے تحت عوامی مقامات پر اس طرح سے چہرے پر مکمل یا جزوی نقاب کے ساتھ جانا منع ہے، جو متعلقہ فرد (خاتون) کو ناقابل شناخت بنا دے۔ اس قانون کی خلاف ورزی پر جرمانے یا سات دنوں تک جیل کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ فرانس وہ پہلا یورپی ملک تھا، جس نے اپریل 2011ء میں اپنے ہاں پورے چہرے کے نقاب پر پابندی عائد کر دی تھی۔ یورپی عدالت برائے انسانی حقوق فرانس میں اس پابندی کے خاتمے کے لیے دائر کی گئی ایک درخواست کو 2014ء میں ہی رد کر چکی ہے۔ اس درخواست میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ یہ پابندی مذہبی آزادی کے خلاف اور متعلقہ فرد کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ بلجیم کی طرف سے عائد کردہ اس پابندی کے خلاف درخواست بلجیم ہی کی ایک خاتون مسلمان شہری سمیعہ بلقاسمی اور ایک مراکشی نژاد مسلمان یمینہ اوسار کی طرف سے یورپی عدالت میں دائر کی گئی تھی۔ انہوں نے اپنی درخواست میں یہ موقف اختیار کیا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے نقاب لیتی ہیں اور اس قانون سے ان کے حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے، جو کہ ایک امتیازی قانون بھی ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بلجیم میں نقاب پر پابندی لگنے کے بعد بھی بلقاسمی نے نقاب لینے کا سلسلہ جاری رکھا، تاہم سماجی دباؤ اور اس خوف کے باعث کہ انہیں جرمانہ ہو سکتا ہے، انہوں نے یہ سلسلہ ترک کر دیا۔ تاہم اوسار کے مطابق انہوں نے اس فیصلے کے بعد اپنے گھر پر ہی رہنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
یورپی عدالت