ہمارے دوست کہتے ہیں کہ یہ تماشا یا پتلی تماشا بہت پہلے ختم ہوسکتا تھا اگر وزیراعظم میاں نواز شریف پاناما لیکس میں اپنے خاندان کا نام آنے کے بعد مستعفی ہوجاتے اور اپنے کسی قابل اعتماد ساتھی کو وزیراعظم بنا کر خود عوام کے روبرو پیش ہوجاتے۔ وہ عوامی جلسوں میں اپنی بے گناہی کا راگ بھی الاپ سکتے تھے اور اپنے مخالفین کو بھی رگید سکتے تھے۔ بیرونی دنیا میں جن حکمرانوں کے نام پاناما لیکس میں آئے انہوں نے مستعفی ہونے میں ہی عافیت سمجھی اور خود کو غیر ضروری تنقید اور رسوائی سے بچالیا۔ اقتدار تو آنی جانی چیز ہے اصل قدر و قیمت تو شخصی وقار اور عزت کی ہے۔ یہ قائم رہے تو اقتدار پھر قدموں میں لوٹنے لگتا ہے لیکن نواز شریف طویل عرصے سے اقتدار میں رہنے کے باوجود یہ نکتہ نہ سمجھ سکے۔ انہوں نے اپنی ذات اور اپنے خاندان کے خلاف الزام تراشیوں کے طوفان میں بھی برسراقتدار رہنے کو ترجیح دی۔ پاناما کیس میں پانچ رکن بینچ کا جزوی فیصلہ آیا تو پانچ میں سے دو ججوں نے انہیں نااہل قرار دے دیا۔ ان پر اٹلی مافیا کے گاڈ فادر کی پھبتی کسی گئی لیکن ان کے کان پر جوں نہ رینگی، وہ اپنی جگہ سے ٹس سے مَس نہ ہوئے، جن تین ججوں نے انہیں نااہل قرار دینے سے گریز کیا انہوں نے بھی ان کے ساتھ کچھ اچھا نہیں کیا، ان ججوں نے انہیں اور ان کے پورے خاندان کو جے آئی ٹی کے آگے ڈال دیا ہے جہاں وہ بار بار پیش ہورہے ہیں اور اپنی مظلومیت کا رونا رو رہے ہیں۔ لطیفہ یہ ہے کہ شریف خاندان کے افراد سے جے آئی ٹی میں مختلف سوالات پوچھے جارہے ہیں اور وہ جے آئی ٹی سے سوال کررہے ہیں کہ بتائو ہمارا قصور کیا ہے؟ جے آئی ٹی بھی اتنی سنگدل ہے کہ انہیں ان کا قصور بتانے سے گریزاں ہے۔ وزیراعظم میاں نواز شریف بھی جے آئی ٹی میں پیش ہوئے۔ ظاہر ہے ان سے بھی سوالات کیے گئے لیکن باہر آکر انہوں نے میڈیا کو بتایا کہ جے آئی ٹی میرے سوالوں کے جوابات نہیں دے سکی۔ لیکن بہ الفاظ دیگر آپ یہ کہہ سکتے ہیں۔
وہ الزام مجھ کو دیتے تھے۔ قصور ان کا نکل آیا
اب یہ تماشا نہیں تو اور کیا ہے کہ جے آئی ٹی اور شریف خاندان دونوں ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں اور دونوں ایک دوسرے سے سوالات کررہے ہیں۔ اس سے بھی بڑا لطیفہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی شخص جے آئی ٹی میں پیشی بھگت کر باہر آتا ہے تو وہ عمران خان پر تبرّا بھیجنا ضروری سمجھتا ہے۔ یہ درست کہ عمران ہی خان نے شریف خاندان کو اس کیس میں پھنسایا ہے وہ اگر شور نہ مچاتے تو شاید عدالت عظمیٰ پاناما کیس کو ہاتھ میں لینے پر آمادہ نہ ہوتی لیکن اب جو تماشا یا پتلی تماشا ہورہا ہے اس کا تعلق براہِ راست عدالت سے ہے، عمران خان کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں، خان تو خود بھی عدالت کے چکر میں آیا ہوا ہے، الیکشن کمیشن اور عدالت عظمیٰ میں اس کے خلاف ریفرنسز چل رہے ہیں اور کہا جارہا ہے کہ اگر ہم گئے تو تمہاری بھی خیر نہیں ہے۔ اس کا جواب خان نے یہ دیا ہے کہ اگر میری نااہلی کے ذریعے اقتدار کے قبضہ مافیا سے نجات مل جائے تو یہ میرے نزدیک کوئی بڑی قیمت نہیں ہے۔
ہمارے دوست کہتے ہیں کہ شریف خاندان عمران خان کو موجودہ صورت حال کا ذمے دار قرار دے رہا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ سارا تماشا یا پتلی تماشا خان کی وجہ سے لگا ہوا ہے، حالاں کہ اس تماشے کا مرکزی کردار بلکہ ہدایت کار بھی خود میاں نواز شریف ہیں۔ وہ اگر نہ چاہتے تو یہ تماشا ہرگز نہ لگتا۔ نہ پاناما کیس کی سماعت ہوتی نہ جے آئی ٹی بنتی نہ پیشیاں بھگتنی پڑتیں۔ بس انہیں اقتدار کی قربانی دینا پڑتی۔ اپنی عزت اور وقار کے لیے یہ کوئی بڑی قربانی نہ ہوتی لیکن کسی اجل الرشید نے انہیں یہ مشورہ نہ دیا اور اب تو موقع ہی نہ رہا جو ہونا تھا ہوچکا۔
گیا ہے سانپ نکل اب لیکر پیٹا کر
البتہ اسحاق ڈار کے مطابق یہ تماشا اب ختم ہوجانا چاہیے، ہم بھی اس موقف کی تائید کرتے ہیں۔