محاذ آرائی کی تیاریاں

146

عوامی حلقوں میں یہ سوالات اُٹھ رہے ہیں کہ شریف خاندان کے خلاف مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کے بعد اب کیا ہوگا ، کیا ہونے جا رہا ہے ۔ کیا وزیر اعظم نوز شریف استعفا دے کر اپنی پارٹی سے کسی اور کو وزیر اعظم بنا دیں گے ، اسمبلیاں تحلیل کر کے نئے انتخابات کا اعلان کر دیں گے یا اپنی مدت پوری ہونے تک معاملے کو عدالت عظمیٰ میں کھینچیں گے تا وقتیکہ نئے انتخابات کی تاریخ آ جائے ۔ خبروں کے مطابق وزیر اعظم اور ان کی پارٹی نے مقابلہ کرنے کی ٹھان لی ہے اور نواز شریف کے استعفے کا امکان مسترد کر دیا ہے ۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ کو خامیوں اور غلط بیانیوں سے بھر پور قرار دے کر اسے عدالت عظمیٰ میں چلنج کرنے کا اعلان کر دیا ہے ۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ کو ’’ گھوسٹ رائیٹرز‘‘ کی تحریر قرار دیا گیا ہے ۔ گھوسٹ رائیٹرز یا بھوت مصنفین کا اشارہ کس کی طرف ہے ، اس کی وضاحت ضروری نہیں ۔ ن لیگ کے وزرا رپورٹ منظر عام پر آنے سے پہلے ہی فوج کی طرف اشارے کرتے رہے ہیں ۔ اس ضمن میں یہ اعتراض بھی کیا گیا کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی سربراہی ایف آئی اے کے بجائے آئی ایس آئی کر رہی ہے ۔ وزیر اعظم کے ڈٹے رہنے اور مقابلہ کرنے کے اعلان کے بعد جو صورتحال بن رہی ہے وہ یہ ہے کہ اب عدالت عظمیٰ میں لڑائی لڑی جائے گی اور اس میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔ گزشتہ منگل کو ن لیگ کا طویل مشاورتی اجلاس ہوا ہے اور بدھ کو بھی وزیر اعظم نے اپنی کابینہ کا اجلاس طلب کیا ہے ۔ نواز شریف کا اصرار ہے کہ انہوں نے کبھی کرپشن نہیں کی اور مخالفین انہیں زبر دستی ہٹانا چاہتے ہیں ، مقدمہ مضبوطی سے لڑیںگے ۔ ضرور لڑیں لیکن ان کے بارے میں عوام کا مجموعی تاثر کیا بن گیا ہے اس کو ضرور مد نظر رکھیں ۔ صرف ان کے وزراء عوام نہیں ہیں ۔ وہ اپنے مفادات کے اسیر ہیں ۔ نواز شریف کے لیے سب سے بہتر راستہ یہ تھا کہ وہ الزامات لگنے اور ان کے ثبوت سامنے آنے سے پہلے ہی عارضی طور پر وزارت عظمیٰ کے منصب سے دست بردار ہو جاتے اور اگر الزامات ثابت نہ ہوتے تو دوبارہ وزیر اعظم بن جاتے۔ اس سے ان کی ساکھ بہت مضبوط ہو جاتی ۔ ممکن ہے کہ اس عمل میں یہ خدشہ ہو کہ ان کا جانشین خود ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دے ۔ اس خدشے سے بچنے کے لیے مریم نواز کا نام بھی لیا گیا تھا جن سے وزیر اعظم کو کوئی خوف نہیں ہو سکتا ۔ اب تو ان کا وہ سیاسی مستقبل بھی دھندلا گیا ہے جو ابھی صحیح طرح شروع بھی نہیں ہوا تھا ۔ عام خیال یہ ہے کہ وزیر اعظم نے اپنامقدمہ صحیح طرح سے نہیں لڑا اور نالائق مشیروں کے مشوروں پر عمل کیا ۔ انہیں اپنے وکیلوں پر بھی اعتماد نہیں تھا ۔ اسحق ڈار اور سعدر فیق نے عدالت عظمیٰ کو مشورہ دیا ہے کہ فیصلے میں جلدی نہ کی جائے کیونکہ جے آئی ٹی رپورٹ میں خامیاں ہیں ۔ اور جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق نے مطالبہ کیا ہے کہ عدالت عظمیٰ اپنا فیصلہ جلد سنائے ، جمہوریت کو کوئی نقصان نہیں ہونے والا ۔ لیکن ن لیگ کے وزراء کو گمان ہے کہ وہ ہی جمہوریت ہیں ۔ سراج الحق کا کہنا ہے کہ یہ کسی ایک سیاسی پارٹی کا معاملہ نہیں ہے، ہنگامہ کر کے اہم ترین قومی مسئلے پر گرد ڈالنے کی کوشش ہو رہی ہے ۔ سراج الحق نے بھی نواز شریف کو مستعفی ہونے کا مشورہ دیا ہے کہ وہ صادق اور امین نہیں رہے ۔ نواز شریف کی حمایت میں نہایت سینیر سیاستدان جاوید ہاشمی یہ نکتہ لے آئے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ کے سوا کوئی صادق اور امین ہو ہی نہیں سکتا چنانچہ آئین کی شق 62-63 کو خارج کیا جائے ۔ نواز شریف کی حمایت کا مقصد واضح ہے لیکن امید نہیں کہ نواز شریف ان کو گلے لگانے پر تیار ہو جائیں ۔ یورپی تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکمرانوں نے جمہوریت کے نام پر ملک کو لوٹا ہے ، گزشتہ 30 برس کا تجزیہ بتاتا ہے کہ پاکستان کو لوٹنے والوں میں سیاسی اور عسکری حکام دونوں شامل ہیں ۔ پاکستان میں جو کچھ ہوتا رہا ہے اور جو ہو رہا ہے اس کے یے کسی یورپی تجزیہ کار کی گواہی کی ضرورت نہیں ۔ یہ بات تو ہر وہ غریب جانتا ہے جس کے بچے بھوک سے بلک رہے ہوتے ہیں اور مائیں مجبور ہو کر اپنے بچوں کو نہر میں پھینک دیتی ہیں یا زہر دے دیتی ہیں ۔ لیکن اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا ن لیگ کی حکومت ختم ہونے اور نواز شریف کے نا اہل قرار دیے جانے پر پاکستان کے عوام کا مقدر سنور جائے گا اور ایسے حکمران میسر ہوں گے جو ملک و قوم کے لیے مخلص ہوں اور غربت و جہالت اور بد عنوانی کا خاتمہ کر سکیں؟ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ اپنے مقدر کا فیصلہ خود عوام کے ہاتھ میں ہے ۔ لیکن اب تک کی تاریخ بتاتی ہے کہ جواب صحیح ہونے کے باوجود نتیجہ خیز نہیں ہے کیونکہ عوام فیصلہ کرتے ہوئے کچھ اور معاملات اور ترجیحات کو پیش نظر رکھتے ہیں چنانچہ جو حکمران منتخب ہوجاتے ہیں ان کا دعویٰ یہی ہوتا ہے کہ انہیں اکثریت کی تائید حاصل ہے اور وہ منتخب نمایندے ہیں ۔ عوامی فیصلے کی ایک چھوٹی سی مثال کراچی کے حلقے پی ایس114 کے ضمنی انتخاب کے نتائج ہیں ۔ عوام کی اکثریت نے انہیں منتخب کیا جنہوں نے کبھی اس حلقے پر توجہ ہی نہیں دی ۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ اور پنجاب میں گزشتہ 9 سال سے مسلسل دو پارٹیوں کی اجارہ داری ہے اور آئندہ عام انتخابات میں بھی کسی تبدیلی کا امکان نہیں ۔ تاہم حزب اختلاف کی جماعتیں وزیر اعظم سے استعفا لینے کے لیے متحد ہو رہی ہیں اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف بھی زد میں ہیں ۔ سندھ میں بد ترین انتظامی نا اہلی کا مظاہرہ کرنے والی پیپلز پارٹی نواز شریف کو ہٹانے کے لیے پنجاب سے تحریک چلانے کا اعلان کررہی ہے اور اس کی کمان بلاول زرداری کو تھما دی ہے جو اپنے تئیں کچھ نہیں ہیں اور آصف زرداری نے ان کو صرف بیانات دینے اور تقریریں پڑھ کر سنانے پر لگایا ہوا ہے ، پیپلز پارٹی کی اصل کمان اب بھی آصف زرداری کے ہاتھ میں ہے ۔ لیکن کیا حزب اختلاف کی جماعتیں بغیر کسی باہمی اختلاف کے وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ منوانے میں کامیاب ہو جائیں گی ۔ عمران خان بار بار عوام کو سڑکوں پر نکلنے اور تحریک چلانے کا اعلان کر رہے ہیں ۔ حکومت بھی عدالتوں کے اندر اور سڑکوں پر مزاحمت کے لیے تیار ہے ۔ پیپلز پارٹی کے اہم رہنما اور نامور وکیل اعتزاز احسن کہتے ہیں کہ حکومت اور جے آئی ٹی میں ملی بھگت ہے ، جے آئی ٹی وزیر اعظم کو محفوظ راستہ دینے کے لیے بنی تھی ۔ ان کا تجزیہ ہے کہ حکومت اور جے آئی ٹی کا کام فکسڈ میچ لگتا ہے ۔ اگر یہ آواز پیپلز پارٹی کی نمائندگی کر رہی ہے تو نواز شریف کے خلاف حزب اختلاف کی کوشش ضعف کا شکار رہے گی ۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی ایسا فیصلہ آ جائے کہ جمہوریت کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے اور ملک میں ہنگامہ آرائی سے بچنے کے لیے صورتحال تبدیل نہ کی جائے ۔ بہر حال جو بھی ہو ، ایک طویل ذہنی خلجان اور بے یقینی کی صورتحال سے نکالنے کے لیے عدالت عظمیٰ کو جلد از جلد کسی نتیجے پر پہنچ جانا چاہیے ۔ اسٹاک مارکیٹ میں کھربوں روپیہ ڈوب چکا ہے ۔