اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک +خبر ایجنسیا ں) عدالت عظمیٰ نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو کرکٹ سے کمائی گئی رقم کی تفصیلات اور غیر ملکی دوروں کے دوران پاکستان کرکٹ بورڈ سے حاصل کی گئی آمدنی کے بارے میں رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔عدالت نے یہ بھی حکم دیا ہے کہ عمران خان نے 1973ء سے لے کر 1983ء تک پیسہ کمایا بھی یا نہیں اور اگر پیسہ کمایا ہے تو اس کی تفصیلات بھی دینی ہوں گی۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 3 رکنی بینچ نے عمران خان کی نا اہلی اور پارٹی کو ممنوع ذرائع سے ملنے والی غیر ملکی امداد سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی۔ عدالت عظمیٰ نے کہا ہے کہ عمران خان نے لندن میں فلیٹ کی خریداری کے لیے رقم کس طرح ادا کی اس کی تفصیلات بھی بتائیں۔ عمران خان کے وکیل کی غیر حاضری پر عدالت عظمیٰ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر آئندہ سماعت پر ان کی جانب سے وکیل پیش نہ ہوئے تو پھر عمران خان کو طلب کرنا پڑے گا جو عدالت میں آکر اپنی اور اپنی جماعت کے بارے میں عدالت عظمیٰ کو آگاہ کریں گے۔سابق اٹارنی جنرل انور منصور ان درخواستوں میں عمران خان کی نمائندگی کر رہے ہیں اور عدالت کو اس بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ علاج کی غرض سے بیرون ملک گئے ہوئے ہیں۔تحریک انصاف کے ایک اور وکیل نعیم بخاری نے عدالت سے درخواست کی کہ اگر بینچ اجازت دے تو وہ انور منصور کی جگہ دلائل دینے کو تیار ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ دلائل صرف ایک روز کے لیے نہیں بلکہ اس وقت تک عدالت میں پیش ہونا پڑے گا جب تک ان درخواستوں پر فیصلہ نہیں آجاتا۔ نعیم بخاری نے بتایا تھا کہ لندن فلیٹ کی فروخت سے عمران خان کو 6 لاکھ 90 ہزار پاؤنڈ ملے تھے ۔چیف جسٹس نے نعیم بخاری سے استفسار کیا کہ انہوںنے وعدہ کیا تھا کہ ٹیکس ریٹرن کی تمام تفصیلات جمع کرا دیں گے جس پر نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ وہ اپنے وعدے پر قائم ہیں اور جلد ہی تفصیلات عدالت میں جمع کرا دی جائیں گی۔اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان ایک عوامی شخصیت ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ چوری کا سراغ لگایا جانا چاہیے تو یہی اصول ان پر بھی لاگو ہونا چاہیے۔الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن نے دائرہ اختیار پر فیصلہ دیا جسے پی ٹی آئی نے چیلنج کر رکھا ہے۔وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ قانون کہتا ہے کہ بیرون ملک فنڈنگ پر پارٹی بن ہی نہیں سکتی جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اب اگر پارٹی بن گئی ہے تو پھر کس کا اختیار ہے، کیا الیکشن کمیشن کی ذمے داری نہیں کہ پارٹی کے بینک اکاؤنٹس چیک کرے۔چیف جسٹس نے کہا کہ معاملہ الیکشن کمیشن کو بطور کمیشن بھجوانے پر فریقین کی رائے ہمارے ذہن میں ہے جب کہ دونوں فریقین نے تحقیقات کے لیے معاملہ کمیشن کو بھجوانے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔ سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کے وکیل نے پی ٹی آئی کی غیر ملکی فنڈنگ کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے پر رضا مندی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کمیشن بنائے ہم تعاون کریں گے۔اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ یہ بات ذہن میں رکھنا ہوگی کہ 20 میں سے ایک کو پکڑیں گے تو تعصب کا الزام لگے گا، کئی سال تک الیکشن کمیشن کیوں سویا رہا، الیکشن کمیشن تمام جماعتوں کے ساتھ یکساں سلوک کرے، دیگر جماعتوں کو فارن ایڈ دینے والی کمپنیاں بھی سامنے آگئی ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ غیر ملکی فنڈنگ کی تحقیقات وفاقی حکومت کا اختیار ہے کمیشن کا نہیں۔پاناما لیکس سے متعلق جے آئی ٹی کی رپورٹ عدالت عظمیٰ میں جمع ہونے کے بعد سماعت کے دوران حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ کے چہروں پر تناؤ نظر آرہا تھا جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما بھی مطمئن دکھائی نہیں دے رہے تھے۔پی ٹی آئی کے رہنما اس وقت اچانک اپنی نشستوں سے کھڑے ہوگئے جب وکیل کے نہ آنے پر عدالت نے کہا کہ ہم کل عمران خان کو طلب کر لیتے ہیں۔ تحریک انصاف کی قانونی ٹیم میں شامل فیصل چودھری روسٹر م پر آئے اور انہوں نے استدعا کی کہ عمران خان کو طلب نہ کیا جائے۔عدالت نے ان درخواستوں کی سماعت 13جولائی تک ملتوی کردی۔ سماعت کے دوران دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کے درمیان تناؤ موجود رہا اور ان میں سے کسی بھی رہنما نے مخالف جماعت کے رہنما سے کوئی بات نہیں کی۔