وزیراعظم مشکل میں پھنس گئے‘ ضروری نہیں رپورٹ من و عن تسلیم کرلی جائے‘ قانونی ماہرین

241

اسلام آباد(آن لائن؍صباح نیوز)جسٹس (ر)طارق محمود نے برطانوی خبر رساں ادارے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ آنے کے بعد اگلے مرحلے میں متاثرہ فریق اپنے اعتراضات تحریری شکل میںعدالت عظمیٰ میں جمع کرواسکتا ہے،جس کے بعد ان اعتراضات پر بحث کی جائے گی اور معاملے کو سنا جائے گا،اگر کوئی فریق بھرپور دلائل کیساتھ رپورٹ میں ناانصافی کی بات کرتا ہے تو عدالت مزید کوئی راستہ نکال سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ عدالت عظمیٰ نے 10 جولائی کوکہا تھا کہ فریقین کے وکلا دلائل کو دہرائیں نہیں بلکہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کی روشنی میں اس پر بحث کریںجس کے بعد عدالتکوئی مناسب فیصلہ دے سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ عدالت کا فیصلہ آنے میں کتنا وقت لگے گاکہنا مشکل ہے۔ سابق اٹارنی جنرل اورعدالت عظمیٰکے سینئر وکیل عرفان قادر نے کہا کہعدالت عظمیٰ نواز شریف کو کلین چٹ نہیں دے سکتی وہ اس وقت بند گلی میں پہنچ گئے ہیں،حکومت کے پاس عدالت عظمیٰ میں دفاع کے سوا کوئی راستہ نہیں،جے آئی ٹی ریفرنس دائر کرنے کا حکم نہیں دے سکتی اور نہ ہی چیئرمین نیب اس کا پابند ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے صدر عارف چودھری نے کہا کہ عدالت عظمیٰ میں جو رپورٹ پیش کی گئی ہے اس میں تو وزیر اعظم کے خلاف چارج شیٹ دیتے ہوئے سب کچھ واضح کر دیا گیا ہے اور ریفرنس دائر کرنے کی سفارش کی گئی ہے ۔عدالت عظمیٰ بار کے سابق صدر اور سینئر وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ نواز شریف کو اس رپورٹ سے بڑا دھچکا لگا ہے، وزیر اعظم کے خلاف ریفرنس دائر کرنا بہت بڑی بات ہے اور ریفرنس کوئی عام چیز نہیں ہوتی، یہ ایک انکوائری کے بعد چالان کا درجہ رکھتا ہے اور اگر چالان جمع ہو جائے تو پھر نواز شریف کے لیے حالات بہتر نہیں ہوں گے، جسٹس(ر)اکرم قریشی نے کہا کہ عدالت عظمیٰ کو نوازشریف کی نااہلی کا فیصلہ کر کے معاملہ نیب کو بھجوانا چاہیے، قانونی ماہر بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد وزیراعظم کے پاس رپورٹ کو چیلنج کرنے کا حق موجود ہے، ابھی عدالت عظمیٰ نے جے آئی ٹی کی رپورٹ کو تسلیم نہیں کیا۔ جسٹس(ر)رشید اے رضوی نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ سے قبل جب عدالت عظمیٰ کے دو جج صاحبان نے کہا کہ نواز شریف صادق اور امین نہیں رہے تب ہی نواز شریف کو مستعفی ہو جانا چاہیے تھا۔ جسٹس(ر)وجیہ الدین احمد نے کہا کہ عدالت عظمیٰ نے جے آئی ٹی کو شواہد اکٹھے کرنے کا حکم دیا تھانہ کہ سفارش کرنے کا اور سوالا ت بھی واضح کر دئیے تھے جس کے بعد جے آئی ٹی کو مطلوبہ سوالات کے جوابات عدالت عظمیٰ میں جمع کرانے تھے ۔اصل مسئلہ نواز شریف کا ہے، عدالت عظمیٰ نواز شریف کو نا اہل قرار دے کر آرٹیکل 62کی وضاحت بھی کرے۔ اگر عدالت عظمیٰ جے آئی ٹی کی سفارش پر معاملہ نیب کو بھجواتی ہے کہ نیب ریفرنس فائل کرے تو اس سے وزیر اعظم نا اہل نہیں ہوں گے ۔سابق ایڈووکیٹ جنرل سندھ بیرسٹر خالد جاوید خان نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں شریف خاندان کے اثاثے آمدن سے زائد ثابت ہو گئے اب معاملہ ٹرائل کی طرف جاتا معلوم ہو رہا ہے ۔ بیرسٹر مرتضی وہاب صدیقی نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں واضح طور پر تحریر کیا گیا ہے کہ شریف خاندان کے اثاثے ان کی آمدنی سے زائد ہیں ۔ شریف خاندان کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالے جائیں ۔جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق یو اے ای دستاویز، قطری شہزادے کا خط منسٹر آف جسٹس کی جانب سے 12ملین کی ٹرانزیکشن کی نفی ، 25فیصد شیئرز اور نوٹری پبلک کی اسٹمپ کی بھی نفی درحقیقت سنگین جرم قرار پایا گیا ہے ، اس لیے عدالت عظمیٰ نواز شریف کو نا اہل قرار دے سکتی ہے۔قانونی ماہرین کے مطابق جے آئی ٹی رپورٹ شریف خاندان کیلیے بڑا دھچکا ہے۔