امریکی عدالت نے 1500عراقی شہریوں کی بے دخلی روک دی

136

واشنگٹن (انٹرنیشنل ڈیسک) امریکی عدالت نے حکومت کو ان 1500 عراقی شہریوں کو واپس بھیجنے سے روک دیا ہے جنہیں امریکی حکومت بے دخل کرنا چاہتی تھی۔ امریکی ریاست مشی گن کے شہر ڈیٹرائٹ کی ایک عدالت کے جج مارک گولڈ اسمتھ نے اپنے ایک فیصلے میں کہا ہے کہ جب تک امریکی حکومت ان افراد کی جانب سے دائر پناہ کی درخواستوں کا حتمی فیصلہ نہیں کرلیتی اس وقت تک انہیں عراق واپس نہ بھیجا جائے۔ فیصلے میں عدالت نے کہا ہے کہ اگر ان عراقیوں کو ان کے وطن واپس بھیجا گیا تو ان کے قتل، ان پر تشدد اور انہیں انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنانے کا خطرہ ہے۔ ان 1500 افراد میں 100 وہ عراقی کیتھولک مسیحی بھی شامل ہیں جنہیں گزشتہ ماہ مجرمانہ کارروائیوں میں ملوث ہونے کے شبہے میں امریکی حکام نے ڈیٹرائٹ کے نواحی علاقوں سے حراست میں لیا تھا۔ ان افراد نے ابتداً امریکا سے اپنی بے دخلی کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا جس کے بعد مقدمے میں عراق سے تعلق رکھنے والے کئی مسیحی اور کرد پناہ گزین اور دوسرے افراد بھی فریق بن گئے تھے جن پر امریکا میں قیام کے دوران مختلف مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات ہیں۔ امریکا میں شہری آزادیوں کے تحفظ کے لیے سرگرم ایک تنظیم امیریکن سول لبرٹیز یونین، جس نے درخواست گزاروں کی طرف سے مقدمے کی پیروی کی تھی، فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ دریں اثنا امریکی سینیٹ کے ری پبلکن ارکان ابھی تک سابق صدر کے اوباما کئیر نامی ہیلتھ کیئر کے قانون کی منسوخی اور اس کا متبادل لانے کا کوئی قانونی فارمولا تلاش کر رہے ہیں۔ ری پبلکن کنٹرول کی کانگریس کے ارکان پر صدر ٹرمپ زور دے رہے ہیں کہ وہ اگست کی اپنی تعطیلات تک صحت کی دیکھ بھال کا ایک نیا بل پیش کر دیں۔ سینیٹ کے اکثریتی رہنما مچ مک کونل کہتے ہیں کہ حالات کا جوں کا توں رہنا کارگر نہیں ہو رہا۔ اگر ہم نے اس بارے میں کچھ نہ کیا تو مزید امریکیوں کو نقصان پہنچنے والا ہے اور اوباما کئیر کے فی الواقع مکمل خاتمے سے قبل ہم پر ان کی مدد کی ذمے داری عائد ہے۔ مک کونل یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اگر کسی بل پر اتفاق نہ ہو سکا تو ری پبلکنز کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ کار نہ ہو گا کہ وہ اوباما کیئر کو بر قرار رکھیں جس کے تحت انشورنس میں معاونت میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔