ہم نے بوسنیائی مسلمانوں کا قتل عام ہونے دیا‘ اقوام متحدہ

118

نیوریارک ؍ سرائیوو (رپورٹ: منیب حسین) اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیریس نے کہا ہے کہ جولائی 1995ء میں سرب فوج کے ہاتھوں سریبرینیتسا کا قتل عام اقوام متحدہ کی تاسیس کے بعد سے یورپ میں سب سے بڑی ظالمانہ کارروائی ہے اور ہمیں اعتراف کرنا چاہیے کہ ہم نے ایسا کرنے کی اجازت دی۔ انتونیو گوتیریس نے یہ بات اپنے ایک پیغام میں کہی، جو جنگ بوسنیا کے دوران سرب فوج کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل عام کی 22 ویں برسی کے موقع پر جاری کیا گیا۔ گوتیریس کا اپنے پیغام میں کہنا تھا کہ آج ہم ان ہزاروں شہدا کو یاد اور خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں اور جولائی 1995ء میں سریبرینیتسا میں رونما ہونے والے ان واقعات میں مرنے والوں کے اہل خانہ اور دوستوں سے اظہارِ یکجہتی کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ واقعات مکمل طور پر ایک مستند تاریخی حقیقت ہیں۔ سیکرٹری جنرل نے کہا کہ عالمی فوجداری عدالت اور بین الاقوامی عدالت انصاف نے سریبرینیتسا میں جو کچھ ہوا، اسے نسل کشی قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ عالمی برادری خصوصاً اقوام متحدہ نے سریبرینیتسا کے المیے کی ذمے داری قبول کی ہے اور آج ہم سب کے لیے یکساں سلامتی، انصاف اور وقار کی خاطر مصالحت کی تمام کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ 11 سے 13 جولائی 1995ء کے دوران راتکوملادیچ کے زیر قیادت صرب فوج نے اقوام متحدہ کی جانب سے محفوظ قرار دیے گئے علاقے سریبرینیتسا میں داخل ہوکر 8372 مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا۔ اس دوران 14 سے 50 برس کے ہزاروں مردوں اور لڑکوں کو الگ لے جاکر قتل کردیا گیا تھا اور ان کی لاشیں اجتماعی قبروں میں دفن کردی گئی تھیں۔ اس دوران خواتین کی عصمت دری بھی کی گئی، جب کہ بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو بھی بے دردی سے شہید کیا گیا۔ اس دوران اقوام متحدہ کے امن مشن میں شامل ڈچ فوجی خاموش تماشائی بنے یہ سب کچھ دیکھتے رہے۔ چند برس قبل سریبرینیتسا میں شہید کیے گئے افراد کے لواحقین نے ڈچ حکومت کے خلاف ایک مقدمہ دائر کیا تھا۔ اس مقدمے میں ہالینڈ سے تعلق رکھنے والے امن فوجیوں پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ صرب فوجیوں کے ہاتھوں شہید کیے گئے مسلمانوں کی حفاظت میں ناکام رہے تھے۔ رواں برس ایک ڈچ عدالت نے نہ صرف اس الزام کو درست تسلیم کیا، بلکہ ڈچ فوجیوں کو واقعے کے وقت اس قتل عام پر راضی بھی قرار دیا۔ ساتھ ہی ڈچ عدالت نے فیصلہ دیا کہ حکومت شہدا کے لواحقین کو زرتلافی کا ایک تہائی ادا کرے گی۔ ہفتے کے روز سریبرینیتسا قتل عام کو 22 برس مکمل ہونے پر اس قصبے میں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ اس تقریب میں 1995ء کے قتل عام میں شہید کیے گئے مزید 71 بوسنیائی مسلمانوں کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی اور ان کی باقیات کی تدفین عمل میں لائی گئی۔ اس تقریب میں ملک کی نامور دینی، سیاسی، حکومتی اور غیرملکی شخصیات نے شرکت کی، جن میں ترکی کے نائب وزیراعظم اور ان کا وفد نمایاں تھے۔ ان باقیات کی تدفین کے بعد سانحے کے لیے مختص قبرستان میں شہدا کی تعداد 6575 ہوگئی ہے، تاہم اب بھی اس نسل کشی میں مارے گئے قریب 1800 افراد لاپتا ہیں۔