ابھی تو مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی، جے آئی ٹی کی رپورٹ عدالت میں پیش ہوئی ہے، جس پر پہلی سماعت آئندہ پیر کو ہوگی لیکن اس سے پہلے ہی کچھ ذرائع ابلاغ جے آئی ٹی کی رپورٹ کے خلاف شروع ہوگئے ہیں ۔ ایسی ہی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جے آئی ٹی نے عدالت عظمیٰ کو گمراہ کیا، نواز شریف کی کوئی آف شور کمپنی نہیں ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر ایف زیڈ ای کیپٹل سے تنخواہ لینا ثابت ہوجائے تو شریف فیملی کو سزا دی جاسکتی ہے ۔اگر فیصلے صحافیوں ہی کو کرنے ہیں تو عدالت کا کیا کام رہ جاتا ہے۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ کو ایشوز کے معاملے میں غلط فہمی سے بھرپور اور متعصبانہ قرار دیا گیا اور یہ کہ اہداف کو ذہن میں رکھ کر تحقیقات کی گئی۔ وغیرہ وغیرہ۔ ایک دن پہلے ہی عدالت عظمیٰ کی برہمی پر ایک رپورٹر معافی طلب کرچکے ہیں۔اب عدالت کا کام اپنے ہاتھ میں لے کر فیصلے کیے جانے لگے ہیں۔ ایسی رپورٹیں حکومت وقت اور وزیراعظم کے حق میں مرتب کی جارہی ہیں جس کا مقصد واضح ہے۔ لیکن اگر نواز شریف وزیر اعظم نہیں رہے تو ساری محنت اکارت جائے گی۔ایف زیڈ ای کیپٹل نامی کمپنی سے نواز شریف کا تعلق ثابت کرنے کے لیے جے آئی ٹی نے جو ثبوت حاصل کیے ہیں ان کو کسی کے کہہ دینے پر تو مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔ اس کی دستاویزات موجود ہیں جن کے مطابق نواز شریف 2014ء تک پاکستان کا وزیراعظم ہونے کے باوجود کمپنی کے چیئرمین بھی رہے اور 10ہزار درہم ماہانہ تنخواہ بھی وصول کرتے رہے۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ کے مطابق یہ تنخواہ ایک لاکھ درہم ماہانہ تھی جس کو مٹاکر دس ہزار کیا گیا۔ شہزادی مریم نواز نے 2011ء میں ایک اینکر ثنا بچہ کو انٹرویو دیتے ہوئے زور دے کر کہا تھا کہ ان کی کوئی جائداد ملک سے باہر کیا ملک کے اندر بھی نہیں اور وہ اپنے والد کی کفالت میں ہیں۔ اب یہ ثابت ہورہا ہے کہ نیلسن اور نیسکول نامی کمپنیاں مریم نواز کی ہیں جن سے وہ منافع بھی حاصل کرتی رہی ہیں۔ یہ خبر بھی آئی ہے کہ نواز شریف کی چھوٹی بیٹی اور اسحاق ڈار کی بہو اسما کو بھی نواز شریف نے 3 کروڑ روپے کے اثاثے منتقل کیے۔ 1991-92ء میں اسما نواز کے اثاثوں کی مالیت 14 لاکھ روپے تھی جو صرف ایک سال بعد 3 کروڑ 15 لاکھ 50 ہزار ہوگئی۔ اب کیا یہ پوچھنا غلط ہوگا کہ کوئی کاربار، کوئی ملازمت کیے بغیر گھر بیٹھے اثاثے کئی گنا زیادہ کیسے ہوئے۔ اگر یہ گُر عوام کو بھی بتادیا جائے تو سب کا فائدہ ہوگا۔ ایسی کام کی چیزیں حکمرانوں کو چھپا کرنہیں رکھنی چاہییں جو عوام کے راعی ہیں ۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ شریف خاندان کی چودھری شوگر ملز خسارے میں تھی لیکن اس سے 11لاکھ روپے کا منافع ملا۔ بیرون ملک خسارے میں جانے والی ملوں کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ انہیں بیچ کر جو رقم ملی اس سے مزید سرمایہ کاری کی گئی۔ سیدھی سی بات ہے کہ شریف خاندان ثبوت پیش کردے کہ اسماء نواز کے ذرائع آمدن کیا ہیں جن سے ان کے اثاثوں میں برکت ہوئی۔صرف ایک سال میں اتنا اضافہ! اگر اسماء کو 30ملین کے اثاثے منتقل کیے گئے تو یہ بہت اچھی بات ہے ۔ اچھے باپ اپنی بیٹیوں کا ایسے ہی خیال رکھتے ہیں اور اگر بیٹیاں غریب گھر میں بیاہی جائیں تو والدین ہی ان کا گھر بھرتے ہیں اور یہ کوشش بھی ہوتی ہے کہ سمدھیانہ آسودہ حال ہو جائے تاکہ بیٹیاں پریشان نہ ہوں ۔ لیکن یہ سوال اٹھادیا گیا ہے کہ اسماء کو اثاثوں کی منتقلی کے ذرائع بتا دیے جائیں ۔ لیکن باپ بیٹی دونوں ہی بتانے سے قاصر ہیں ۔ شریف خاندان کا بڑا داماد کیپٹن صفدر بھی اپنے سسرال سے ماہانہ ڈیڑھ ہزار ریال وصول کرتا رہا۔ 15سو ریال کی حیثیت ہی کیا ہے، ممکن ہے اس معمولی رقم کے عوض کیپٹن صفدر کی خدمات کہیں زیادہ ہوں ۔ نواز شریف کی وکالت میں ایک صحافتی گروپ کے بیان صفائی پر مخالف پینل میں نکتہ بہ نکتہ تردید کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے جس کا تعلق پیشہ ورانہ رقابت سے ہے لیکن عوام کے سامنے دونوں رخ آگئے ہیں ۔ مگریہ جو عدالت سے باہر عدالتیں سج گئی ہیں کیا ان کے بعد عدالت عظمیٰ کا کوئی کام رہ گیا ہے۔ میاں نواز شریف نے صاف کہہ دیا ہے کہ وہ وزارت عظمیٰ ہرگز نہیں چھوڑیں گے۔ ان کی کابینہ نے بھی حمایت کردی ہے مگر اطلاعات کے مطابق خود پارٹی میں پھوٹ پڑ گئی ہے ۔کچھ وفاقی وزراء اور چھوٹے بھائی شہباز شریف نے بھی استعفا دینے کا مشورہ دیا ہے۔ لیکن میاں صاحب معقول مشوروں پر توجہ نہیں دیتے۔