معاشرے میں بڑھتی ہوئی سفاکی

228

Edarti LOHمعاشرے میں ظلم، وحشت اور درندگی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ وہ جو خود کو بالا دست اور مقتدر سمجھتے ہیں وہ اپنے زیر دست، غریب، لاچار اور مجبور فرد پر ظلم ڈھانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے۔ چین کی کہاوت ہے کہ مچھلی سر کی طرف سے سڑنا شروع ہوتی ہے۔ ایسا ہی کچھ انسانی معاشرے میں ہو رہا ہے۔ جب اہل اقتدار شقی القب ہوں تو اس کے اثرات لازماً نیچے تک آئیں گے۔ گزشتہ دنوں ایبٹ آباد کے نواح میں ایک گدھا کھیتوں میں گھس گیا۔ 8سال کا بچہ اپنے گدھے کو لینے آیا تو کھیتوں کے سفاک مالک نے بچے کو گدھے سے باندھ کر دور تک گھسیٹا حتیٰ کہ بچہ دم توڑ گیا۔ پولیس نے اس ظالم زمیندار کو گرفتار کرلیا جس کا نام اس کے عمل کے برعکس محمد مسکین ہے۔ یہ صریحاً قتل عمد ہے جس پر قاتل کو سخت ترین سزا ملنی چاہیے اور کسی بہانے سے اسے بچ نکلنے کا موقع نہیں ملنا چاہیے۔ انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ اس ’’ مسکین‘‘ کو بھی گدھے کی دم سے باندھ کر اس وقت تک گھسیٹا جائے جب تک اس کا دم نہ نکل جائے۔ لیکن پاکستان کے قانون میں اس کی گنجائش نہیں ۔ مقتول بچے کے اہل خانہ غریب ہیں ۔ وہ شاید مقدمے کی پیروی نہ کر سکیںچنانچہ یہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ مجرم کو سخت ترین سزا دلوائے۔ یہ سانحہ تحریک انصاف کی عملداری میں پیش آیا ہے اس لیے مدعی بھی وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کوہونا چاہیے۔ بے رحمی اور سفاکی کا ایک اور معاملہ پنجاب کی راجدھانی لاہور میں پیش آیا ہے جہاں ایک اور گھریلو ملازم کو تشدد کر کے ہلاک کردیا گیا، اس نو عمر لڑکے کی لاش مسلم لیگ ن کے رکن اسمبلی کے گھر سے برآمد ہوئی۔ ملازم اختر پر مالکن نے اتنا تشدد کیا کہ وہ جاں بحق ہوگیا۔ اس کی بہن بھی زخموں سے چور ہے۔ اس مقدمے میں رکن پنجاب اسمبلی کی بیٹی فوزیہ کو فریق بنایا گیا ہے۔ حیرت ہے کہ ایک ملازم لڑکے کو تشدد کرکے ہلاک کرنے پر مقامی عدالت نے فوزیہ کی ضمانت بھی صرف 50 ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض فوری منظور کرلی۔ کیا ایڈیشنل سیشن جج کی یہ عنایت اس لیے ہے کہ فوزیہ برسر اقتدار جماعت کے رکن اسمبلی کی بیٹی ہے؟ کیا ایسے معاملے میں کسی عام مجرم کو بھی ایسی رعایت ملتی ہے کہ ادھر پرتشدد لاش برآمد ہو اور ادھر ضمانت ہو جائے۔ کیا اس پر بھی کوئی جے آئی ٹی بنائی جائے گی۔ معزز سیشن جج نے کس بنیاد پر ضمانت منظور کی ہے۔ ابھی تو اسلام آباد میں گھریلو ملازمہ طیبہ کا مقدمہ بھی فیصل نہیں ہوا کہ مجرموں میں خود ایک جج صاحب اور ان کی اہلیہ کا نام ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے حسب معمول اختر کے قتل کا نوٹس بھی لے لیا ہے اور کہا جارہا ہے کہ حکمران لیگ سے تعلق کے باوجود انصاف کیا جائے گا۔ سب سے پہلے تو فوزیہ کی ضمانت منسوخ کر کے اسے گرفتار کیا جائے اور اگر اس سفاک گھرانے کے سربراہ رکن پنجاب اسمبلی کی رکنیت منسوخ نہیں ہوتی تو اسے پارٹی سے تو نکالا جاسکتا ہے گو کہ ن لیگ اس وقت جس گرداب میں ہے اسے ایک ایک رکن کی حمایت درکار ہے خواہ وہ کیسے ہی کردار کا مالک ہو۔ لیکن حکمران یہ ضرور یاد رکھیں کہ ظالموں کی حمایت کرنے اور ان کی پشت پناہی کرنے والے اللہ کی پکڑ میں آجاتے ہیں ۔ ظلم کی حکمرانی چلتی نہیں ہے۔