تھر میں موت کا راج

235

Edarti LOHسندھ کے علاقے تھر میں بچے اس طرح مر رہے ہیں جیسے رانی کھیت کی وبا پھیلنے سے مرغیاں مرتی ہیں یا اس صحرائی علاقے کی خوبصورتی ، مور مر رہے ہیں ۔ لیکن انسانوں اور پرندوں میں بڑا فرق ہے ۔ سندھ پر حکمرانی کرنے والی پیپلز پارٹی کو شاید یہ یاد نہیں رہا کہ تھر بھی سندھ کا حصہ ہے اور وہاں بھی انسان بستے ہیں ، وہ انسان جن کی اکثریت پیپلزپارٹی ہی کو ووٹ دیتی ہے ۔ ایک ایک کر کے تھر کے مفلوک الحال عوام کے بچے مر رہے ہیں اور حکمرانوں کے پاس محض جھوٹ بولنے کے اور کوئی راستہ نہیں ۔ گزشتہ جمعرات کو بھی 3 بچے دم توڑ گئے ۔ اس طرح صرف ایک ہفتے میں مرنے والے بچوں کی تعداد 8 ہو چکی ہے ۔ یہ سلسلہ گزشتہ 5 سال سے جاری ہے ۔ سابق وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ اسے معمول قرار دے چکے ہیں ۔ یہ وہی وزیر اعلیٰ ہیں جو اپنی پوری کابینہ کو لے کر تھر کے بڑے شہر مٹھی پہنچے تھے جہاں ان کے لیے تیار کیے گے کھانوں کی بڑی دھوم مچی تھی ۔ ایسے کھانے جن کا نام بھی تھری باشندوں نے نہیں سنا تھا ۔ موجودہ وزیر اعلیٰ بھی مٹھی میں ایک دعوت رکھوا لیں ۔ا نہوں نے تھر کو گرین تھر بنانے کا اعلان کیا ہے جہاں بچوں کی لاشیں بکھری پڑی ہیں ۔ صرف ایک سال میں 178 بچے دم توڑ چکے ہیں لیکن کسی کے کانوںپر جوں نہیں رینگی ۔ غریبوں کے ننگے بھوکے بچے ہیں ، مرتے ہیں تو مریں کون سے اہل ثروت کے بچے ہیں کہ فکر کی جائے ۔ شاید یہ بھی خاندانی منصوبہ بندی کا حصہ ہو جس پر پاکستان کا حکمران طبقہ تشویش کا اظہار کرتا رہتا ہے کہ کہیں ان کے منہ کا ایک نوالہ کم نہ ہو جائے ۔ ضلع تھر کے اسپتالوں میں اب بھی سہولتوں کا فقدان ہے اور حکمرانوں کے دعوئوں کی فراوانی ۔ ڈاکٹروںکی تنخواہ دوگنی کر دی گئی ہے لیکن بد انتظامی کئی گنا ہے ۔ مریضوں کے لیے دوائیں نہیں ۔ اسلام کوٹ ، چھاچھرو ، ننگرپارکر اور ڈیپلو کے تعلقہ اسپتالوں میں بچوں کے علاج کا مناسب بندو بست نہیں ہے ۔ بنیادی صحت مراکز بھی سہولتوں سے خالی ہیں ۔ بچے اور ان کی مائیں غذائی قلت کا شکار ہیں اور حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ دوائیں اور غذائیں سب دستیاب ہیں ۔