برھان وانی کے بعد کشمیر کا ایک سال

203

Arif Behar8جولائی 2016سے آج تک کاکشمیر برھان وانی کا ہے۔ عوامی جذبات کے مظہر نعروں سے درو دیوار پر آویزاںتصویروں تک اور ٹیلی ویژن اسٹوڈیوز سے اخبارات کے صفحوں تک، فیس بک کی پروفائل پکچرز سے ٹویٹر کے ٹرینڈز تک ایک سال سے یہی نام اور کردار کشمیر کی سب سے بڑی زمینی حقیقت ہے۔ ایک بائیس سالہ نوجوان اپنے آبائی گائوں کی عید گاہ میں قائم مزار شہدا کے ایک کونے میں ہری گھاس سے لدی ہوئی قبرسے کشمیر کے پیرو جواں کے دلوں پرراج نہیں کررہا بلکہ پاکستان میں وزیر اعظم میاں نوازشریف سے فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ تک سب لوگ کسی نہ کسی انداز سے اس نوجوان کا تذکرہ کرتے ہیں۔
برھان وانی کی شہادت کے بعدکشمیر ایک دردناک عتاب اور انقلاب سے آشنا ہوا ہے۔ اس ایک سال کے عرصے میں کشمیر مسلسل رزمیہ اور المیہ واقعات سے دوچار ہوتا چلا آ رہا ہے۔ اس ایک سال میں کشمیر جہاں طوفانی مزاحمت سے آشنا ہوا جس کا مرکزی کردار نوعمر اور موت کے خوف سے آزاد اور بے نیاز نوجوان تھے وہیں بھارت نے پوری طاقت اس لہر کو دبانے کے لیے وقف کی۔ برھان وانی کی شہادت کے روز سے چھ ماہ تک تو کشمیر ایک مخصوص مزاحمتی اور جنگی ماحول میں رہا۔ جہاں ایک طرف حریت پسندوں کی سیاسی قیادت آل پارٹیز حریت کانفرنس ایک باقاعدہ کیلنڈر کے تحت ہڑتالوں کا اعلان کرکے نبض زندگی روک دیتی رہی وہیں بھارتی فوج کرفیو نافذ کرکے بھی کاروبار حیات میں خلل ڈالتی رہی۔ روزانہ کی بنیاد پر نوجوان لڑکے ہاتھوں میں پتھر لیے سڑکوں کا رخ کرتے بھارتی فوج گولی چلاتی یا چھروں والی بندوق یعنی پیلٹ گن کا استعمال کرتی اور یوں ہر سور ج اپنے جلو میں ایک المناک داستان لیے طلوع ہوتا اور ہر شام اپنے دامن میں آہوں، سسکیوں اور ماتمی گیتوں کو سموئے جلوہ گر ہوتی۔ اس ایک سال میںجہاں ایک سو سے زیادہ افراد جاں سے گزر گئے وہیں پیلٹ گن کے استعمال سے سیکڑوں افراد بینائی سے محروم ہوگئے۔ سری نگر کے مرکزی ہسپتال کی طرف سے جاری کردہ اعداد وشمارکے مطابق ایک سال کے عرصے میں پیلٹ گن کی وجہ سے سولہ افراد دونوں آنکھوں کی بینائی سے محروم ہو گئے جن میں اسکول کی بچی عشاء بھی شامل ہے جب کہ 161 افراد نے ایک آنکھ کی بینائی کھو دی۔ 1043لوگوں کی آنکھوں پر پیلٹ گن کے چھروں سے زخم آئے۔70افراد کی دونوں آنکھیں جزوی طور متاثر ہوئیں۔ 10,000 افراد کے جسم کے مختلف حصوں پر چھروں سے زخم آئے۔ 16افراد پیلٹ گن کی فائرنگ سے جاں بحق ہوئے۔ صرف 2017یعنی رواں برس60افراد پیلٹ گن سے زخمی ہوئے۔ یہ اعداد وشمار ثابت کررہے ہیں کہ قدرت نے جس فیاضی سے انسان کو آنکھوں کا نور عطا کیا تھا اتنی ہی بے دردی سے کشمیر میں انسانوں سے یہ نعمت چھیننے کی کوشش کی گئی۔ اس کے علاوہ بے شمار لوگ مسلسل کشیدگی اور حالت جنگ میں رہنے کی وجہ سے نفسیاتی امراض کا شکار ہو چکے ہیں۔
برھان وانی کی شہادت سے پہلے عسکریت تیزی سے غیر مقبول اور متروک ہوتی جا رہی تھی مگر اس کے بعد کشمیرکے تعلیم یافتہ نوجوان دوبارہ بندوق کو رومنٹسائز کرنے لگ گئے اور سرکاری اعداوشمار کے مطابق اس ایک سال میں 67 مقامی نوجوان عسکریت میں شامل ہوگئے۔ جن میں پی ایچ ڈی اسکالر، ایم فل ڈگری کے حامل، انجینئر اور گریجویٹ شامل ہیں۔ کمسن بچوں کی بہت سی ویڈیو کلپس عام ہوئیں جن میں وہ آزادی کے نعرے لگا رہے ہیں اور بندوق کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ یوں عسکریت کے ساتھ رومانس بہت نچلی سطح تک سرایت کرنے لگا ہے۔
ایک برس گزرنے کے دوران بھارت نے کشمیر میں بامعنی سیاسی عمل کی ابتدا کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ سول اور فوجی حکام صرف کشمیریوں کو دھمکیاں دے کر حالات کو معمول پر لانے کی کوشش کر تے رہے مگر ایسی ہر دھمکی بے اثر ثابت ہو تی رہی کیوں کہ خود بھارتی وفود نے یہ تسلیم کیا کہ آج بھارت کا سامنا موت کے خوف سے بے نیاز نسل سے ہے۔ جو موت سے بھاگنے کے بجائے موت کی طرف لپکتی ہے۔ بھارت سے آنے والے سیاسی اور غیر سیاسی وفود نے کشمیر کے حالات کا گہری نظر سے جائزہ لیا اور مسئلے کو درست تناظر میں پیش کرنے کی سعی کی۔ اکثر وفود نے تسلیم کیا کہ مسئلہ صرف اتنا نہیں کہ کوئی بیرونی ہاتھ کشمیریوں کو احتجاج کے لیے اُکساتا ہے بلکہ مسئلے کی جڑیں تاریخ میں بہت دور تک پھیلی ہوئی ہیں اور کشمیر محض امن وامان کا نہیں بلکہ ایک سیاسی مسئلہ ہے۔ یہ آواز یشونت سنہا جیسے بھارت کے سابق وزرا کی بھی تھی اور اس میں مسٹر کاٹجو جیسے سپریم کورٹ آف انڈیا کے سابق جج اور پریم شنکر جھا جیسے اخبارنویسوں کی آواز بھی شامل تھی۔
برھان وانی کی پہلی برسی پر کسی بڑے حادثے کو روکنا بھارت کے لیے چیلنج بن چکا تھا۔ بھارت کی طرف سے برھان وانی کی برسی منانے سے روکنے کے لیے جو اقدامات کیے گئے انہوں نے سری نگر کے انگریزی اخبارات کے بقول وادی کو ایک فوجی چھائونی میں بدل دیا تھا۔ لوگوں کو بڑی تعداد میں برھان وانی کے گھر، گائوں اور قبر تک پہنچنے سے روکنے کے لیے سخت ترین انتظامات کیے گئے تھے۔ اس کے باجود لوگ چھوٹی چھوٹی ٹولیوں یا انفردی طور پر ان کے گھر پہنچ کر فاتحہ خوانی کرتے رہے۔ برھان وانی کے والد مظفر وانی نے بتایا کہ انہیں فوجی حکام نے صاف لفظوں میں بتادیا تھا کہ اگر ان کے گھر میں کوئی دعائیہ محفل سجائی گئی تو گھر کو نذر آتش کرنے میں تاخیر نہیں کی جائے گی۔ ایک سال میں پہلی مرتبہ کشمیر کا میڈیا برھان کی والدہ تک جو خود ایک ٹیچر ہیں پہنچنے اور ان سے کچھ گفتگو کرنے میں کامیاب ہوا۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ وہ حیرت زدہ ہیں کہ غسل خانے میں اکیلا نہ جانے والا بچہ اس قدر بہادر کیسے ہوا کہ اس نے خوفناک اور گھنے جنگلوں میں زندگی کے چھ سال گزار دیے؟۔