سرکاری اسکولوں کے نتائج

179

zc_alamgirAfridiپشاوربورڈ کے حالیہ میٹرک نتائج کے مطابق سائنس اور آرٹس گروپ کے ٹاپ20 پوزیشن ہولڈرز طلبہ وطالبات میں سرکاری اسکولوں کا ایک بھی طالب علم یا طالبہ شامل نہیں ہے جس سے کے بعد سوشل میڈیا پر سرکاری اسکولوں کی کارکردگی کے حوالے سے حکومتی پالیسیوں اور اصلاحات کے بلند بانگ دعووںپر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر جاری اس بحث اور تنقید کی توپوں کا زیادہ تر رُ خ صوبائی حکومت اور اساتذہ کی جانب ہے لیکن حیران کن طور پر اس تنقید اور محاسبے کا اب تک کوئی باقاعدہ جواب اور وضاحت نہ تو حکومت اور محکمہ تعلیم کی جانب سے سامنے آیا ہے اور نہ ہی اساتذہ کی کسی نمائندہ تنظیم نے اس تنقید کا کوئی جواب دینے کی ضرورت محسوس کی ہے۔
میٹرک کے حالیہ نتائج میں سرکاری اسکولوں کی کارکردگی پر تنقید کی گنجائش بھی ہے اور یہ تنقید ہونی بھی چاہیے لیکن یہ تنقید اخلاقیات کے دائرے اور مثبت سوچ کے تحت ہونی چاہیے کیوں کہ مثبت تنقید، خود احتسابی اورخامیوں کی نشاندہی زندہ قوموں کی نشانی ہے۔ ہمارے ہاں سرکاری اسکولوں کے نتائج پہلی دفعہ خراب نہیں آئے ہیں بلکہ یہ روگ ہم پچھلی کئی دہائیوں سے پال رہے ہیں خاص کر جب سے ہمارے ہاں نجی تعلیمی اداروں کا بھونچال آیا ہے تب سے یہ موازنہ اور بحث جاری ہے۔ بد قسمتی سے چوں کہ ہم ایک جذباتی قوم ہیں اس لیے ہم کام پہلے کرتے ہیں،کسی مسئلے اور ایشو پر اپنی رائے اور ردعمل بھی پہلے دیتے ہیں لیکن ان امور پر بالعموم سوچتے بعد میں ہیں بلکہ اکثر اوقات تو اس کی نوبت یا تو آتی نہیں ہے اور یا پھر کم ہی آتی ہے۔کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ہمارے ہاں کچھ عرصہ پہلے تک جب نجی تعلیمی اداروں کا کلچر پروان نہیں چڑھا تھاتوکیا بورڈ اور یونیورسٹیز کے ٹاپ پوزیشن ہولڈرز کا تعلق سرکاری تعلیمی اداروں سے نہیں ہوتا تھا۔ کیا پاکستان کی پہلی، دوسری اور حتیٰ کہ تیسری نسل کی اکثریت بھی سرکاری تعلیمی اداروں کی پڑھی ہوئی نہیں ہے۔ کیا پچھلے پچاس ساٹھ سال میں زندگی کے مختلف شعبوں میں گراں مایہ خدمات حتیٰ کہ بعض نمایاں کارنامے انجام دینے والی نابغہ روزگار شخصیات کا تعلق ٹاٹ اسکولوں سے نہیں رہا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر وہ کیا اسباب اور عوامل ہیں جن کے باعث سرکاری اسکولوں کو ٹاٹ اور چٹائی کے بجائے فرنیچراور قلم ودوات اور تختی کے بجائے کمپیوٹرتومل گئے ہیں لیکن ان اسکولوں سے کوئی ڈاکٹر عبد القدیر خان، ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی اور غلام اسحاق خان پیدا نہیں ہو رہے ہیں۔ اس ضمن میںہمارے بعض ناقدین کا خیال ہے کہ سرکاری اسکولوں کی ناقص کارکردگی کے زیادہ ترذمے دار اساتذہ ہیں، کچھ اس کا ذمے دار محکمہ تعلیم کوقراردیتے ہیں، بعض کے خیال میں نصاب کا تفاوت اس ناکامی کی وجہ ہے جب کہ کچھ احباب اس کی ذمے داری پرائیویٹ اداروں اور بورڈز کی ملی بھگت پر ڈال کر گلوخلاصی کرتے ہیں۔ ان تمام باتوں میں یقینا کچھ نہ کچھ وزن ضرور ہے لیکن کوئی بھی رائے قائم کرنے سے پہلے ہمیں تصویر کا کوئی ایک رخ دیکھنے کے بجائے ایمانداری سے تمام معروضی حالات اور حقائق کو مدنظر رکھ کر کسی حتمی نتیجے پر پہنچنا ہوگا۔ یہاں 2 مزید سوالات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ اگر سرکاری اسکول اتنے ہی گئے گزرے اور خراب ہیں تو پھر آخر ان میں تمام تر خرابیوں کے باوجود تل دھرنے کی جگہ کیوں نہیں ہے۔ کیا اتنی بڑی تعداد کوایک استاد کے لیے پڑھانا اور ان بچوں کو نجی اداروں کے بچوں کے مقابلے کے لیے تیار کرنا ممکن ہے۔ سرکاری اسکولوں کی خراب کارکردگی کی دوسری بڑی وجہ چیک اینڈ بیلنس کے کسی موثر نظام کا نہ ہونا ہے۔نجی اداروں میں چوں کہ مالکان ہی آل ان آل ہوتے ہیں اور ان کے پاس چوں کہ ہائر اینڈ فائرکی مکمل اتھارٹی ہوتی ہے اس لیے بحیثیت قوم ہم چوں کہ ڈنڈے کے نیچے کام کرنے کے عادی ہیں اور ایسی حالت میں ہم بہتر نتائج دیتے ہیں اس لیے نجی اسکولوں کے نتائج اچھے آتے ہیں اور سرکاری اسکولوں میں اساتذہ اپنی ایک درجن تنظیموںاورسیاسی وابستگیوں کے بل پر اپنی مونچھوں کو تائو دیتے ہوئے نہ تو اپنے آپ کو کسی کے سامنے جواب دہ سمجھتے ہیں اور نہ ہی کسی تنقید اور محاسبے کو خاطر میں لاتے ہیں۔ سرکاری اسکولوں کی ناقص کارکردگی کی بحث میں جو لوگ صوبائی وزیر تعلیم کی تعلیمی قابلیت پر سوالات اٹھا رہے ہیں انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ اس بحث کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیوں کہ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں ایسے وزرا تعلیم بھی رہے ہیں جو انگوٹھا چھاپ تھے لہٰذا اس سے کوئی زیادہ فرق نہیں پڑتا کہ وزیر تعلیم کی تعلیمی قابلیت کیا ہے۔ ویسے بھی ہمارے ہاں وزرا اور دیگر منتخب لوگوں کی زیادہ تر دلچسپی چوں کہ اسکول چلانے اور ان کا معیار بہتر بنانے کے بجائے نئے اسکول بنانے، ان کے ٹھیکے بانٹنے، بھرتیوں اور تبادلوں میں ہاتھ آنے والے کمیشنوں میں ہوتی ہے اس لیے حالیہ نتائج کے حوالے سے ان کے سامنے فریاد کرنا بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف ہے۔ حرف آخریہ کہ سرکاری تعلیمی اداروں کو مزید تجربات کی بھینٹ چڑھانے اور اسے نیم حکیموں (بیوروکریسی) کے رحم وکرم پر چھوڑنے کے بجائے درپیش مسائل وچیلنجز کاکوئی قابل عمل حل تلاش کرنے کے لیے ماہرین تعلیم، اساتذہ اوروالدین پر مشتمل کوئی فورم تشکیل دے کر یہ اہم ٹاسک اس کے حوالے کردینا چاہیے شاید ان مسائل سے عملی طور پر نمٹنے کا یہی ایک متوازن اور بہترحل ہو سکتاہے۔

عالمگیر آفریدی