نوجوانوں کو بچانے کے لیے علما آگے بڑھیں

122

سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ خرابی کہاں نہیں ہے؟ جس طرف نظر دوڑائیں خرابی ہی خرابی دکھائی دیتی ہے، ملک کے حالات دیکھ کر دماغ مائوف ہونے لگتا ہے اور مایوسی کی سی کیفیت ہونے لگتی ہے۔ لیکن پھر اللہ ربّ کریم کی ذات واحد پر توکل ہمیں اُمید کی روشنی کی طرف لے آتا ہے۔
والدین اپنے بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کے لیے کن کن مشکل حالات سے گزرتے ہیں، اُس کا اندازہ بچے اُس وقت تک نہیں لگاسکتے جب تک کہ وہ خود اِس مرحلے سے گزرنے کے قابل نہیں ہوجاتے ہیں۔ چند سال پہلے تک والدین اپنے بچوں کے بارے میں فکر مند ہوتے تھے کہ وہ باہر کے ماحول میں کسی بُری عادت کا شکار نہ ہوجائیں اور اُنہیں سگریٹ نوشی، جوا اور دوسری نشہ آور اشیا سے کس طرح دور رکھا جائے۔ لیکن آج والدین کے یہ خدشات بہت پیچھے چلے گئے ہیں وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ جن بچوں کو ملک و قوم کے لیے جانیں قربان کرنی ہیں وہ ملک میں تباہی پھیلانے کے لیے اپنی جانیں گنوارہے ہیں۔ گھر بیٹھے بچوں کے دماغوں کو کنٹرول کیا جارہا ہے، پاکستان میں یہی شور ڈالا جاتا رہا کہ مدرسوں میں پڑھنے والے بچے دہشت گرد بن جاتے ہیں لیکن یہ کیا؟ ٹی وی پر چلنے والا خبر نامہ تو کچھ اور ہی معلومات فراہم کرتا ہے کہ جتنے بھی دہشت گرد پکڑے یا مارے جاتے ہیں وہ تمام بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں پڑھ رہے ہوتے ہیں یا پھر فارغ التحصیل ہوتے ہیں۔ اُن میں سے تو ایک بھی مدرسہ کا طالب علم نہیں، حد تو یہ ہے کہ اب پڑھی لکھی لڑکیاں بھی اس سلسلے میں اپنی خدمات پیش کررہی ہیں۔
اس خطرناک صورت حال کا کوئی نہ کوئی حل تو نکالنا ہوگا، حکومت وقت پر کیا ذمے داری ڈالیں وہ تو ’’بیچاری‘‘ پہلے ہی ہر طرف سے دولت سمیٹنے میں مصروف ہے اُس کے پاس تو وقت نہیں، ہاں البتہ علما کرام اور دانش ور طبقہ سیمینارز اور ٹی وی شوز سے باہر نکلیں اور کالجوں اور یونیورسٹیوں کا رُخ کریں اور وہاں پر ہفتے میں نہیں تو پندرہ دن بعد اسلامی لیکچرز کا اہتمام کریں اور یونیورسٹیوں کی انتظامیہ کے ذریعے طلبہ کو ان پروگراموں میں شرکت کو لازمی بنائیں۔ خدارا علما آگے بڑھیں اور ہماری بھٹکی ہوئی نسل کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کرائیں۔ اب ہم سب کو مل کر اس بگاڑ کو ٹھیک کرنا ہے اگر نیک نیتی سے کام کریں گے تو اللہ تعالیٰ ضرور مدد فرمائے گا۔
فوزیہ تنویر، ملیر کینٹ