عبدالستار میرانی
ذوالفقار علی بھٹو اور شہید بے نظیر بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی غریب عوام کی پارٹی کے طور پر عوام میں متعارف کرائی تھی اور بھٹو انتخابی سرگرمیوں کے دوران بھیک مانگنے والے جوگی فقیروں کے ساتھ زمین پر بیٹھنے سے نہیں کتراتے تھے، غریب کے ساتھ والہانہ محبت کے اعتراف میں اس نے اپنی پارٹی کے منشور میں طاقت کا سرچشمہ عوام کو ظاہر کرکے غریب اور مڈل کلاس کے دل جیت لیے اور غریب نے بھی اپنے دلوں کے دروازے کھول کر بڑے بڑے بت توڑ کر انہیں اقتدار کے ایوانوں تک پہنچایا ۔ 80ء اور 90ء کی دہائی کے دوران تنظیمی عہدہ قربانیوں اور جدوجہد کو دیکھ کر دیا جاتا تھا مگر آج پیپلز پارٹی پر وڈیروں، نقلی جیالوں کی گرفت مضبوط ہے جو میرٹ اور قربانیوں کو سبوتاژ کرکے کسانوں، رشتہ داروں اور جی حضوری کرنے والوں کو تنظیمی عہدوں پر نامزد کرانے کے لیے بے تاب ہیں، لوٹ کھسوٹ کی بازار گرم ہے، پیپلز پارٹی کی تنظیم نو کے لیے قائم کردہ کوآرڈینیشن کمیٹیوں پر بھی وڈیروں اور سرمایہ داروں کی گرفت مضبوط ہے جو میرٹ اور قربانیوں کو نظر انداز کرکے اپنے کسانوں کمداروں، قریبی رشتہ داروں، دوستوں اور جی حضور کرنے والوں کو تنظیمی عہدے دلانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ ملازمتوں کی فروخت تو عام ہے مگر مختلف سرکاری محکموں کی کمائی اور رشوت والی پوسٹیں وزرا، اسمبلی ارکان اور بااثر لوگوں کے قریبی رشتہ داروں کو یا منتھلیوں پر دیے جاتے ہیں جنہوں نے مال غنیمت سمجھ کر اداروں کو لوٹ لیا ہے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ کچھ اسمبلی ارکان کی ٹکٹیں سینیٹرز خصوصاً اقلیتوں کو سینیٹر اور محکمات کی وزارت بھی دولت اور منتھلیوں پر دی گئی ہیں۔ اب پیپلز پارٹی غریبوں کی پارٹی نہیں رہی ہے اور کرپشن کی چکی میں پس رہی ہے۔ مال لوٹو، کھائو اور کھلائو چل رہا ہے، محکموں کے افسران بھی لوٹ کھسوٹ کرکے ادارے تباہ کررہے ہیں، ترقیاتی کاموں کے کروڑوں روپوں کی لوٹ کھسوٹ جاری ہے، کوئی بھی چیک بیلنس نہیں ہے، پانی کی کمی ہے۔ تعلیم، صحت اور صفائی کی سہولتوں سمیت عوام بنیادی مسائل کے حل سے محروم ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں سے ڈاکٹرز غائب ہو کر اپنے پرائیویٹ ہسپتالوں اور میڈیکل اسٹور چلارہے ہیں۔ سندھ کی اہم سرکاری عمارتوں، قیمتی سرکاری پلاٹوں اور سرکاری زمینوں پر وڈیرے قابض ہیں اور حکمران خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ سفارش، دولت کی چمک اور رشوت کی عوض پیپلز پارٹی کے اہم عہدے بلدیاتی اداروں کی چیئرمین شپ ایسے افراد کو دی گئی ہیں۔ جو پرویز مشرف کے دور میں مشرف کے حامی وزرا اور ارکان اسمبلی کے مظالم کے خلاف بولنے سے کتراتے تھے وہ آج پیپلز پارٹی کے مالک بنے ہوئے ہیں اور دولت جمع کرنے میں مصروف ہیں جب کہ پیپلز پارٹی کے جدوجہد اور قربانیاں دینے والے کارکن نظریاتی، بھٹو ازم کے پیروکار اور حقیقی جیالے نظر انداز ہیں اور احتجاج کررہے ہیں، اہم تنظیم عہدے، بلدیاتی اداروں چیئرمین کی پوسٹیں اور وزارتیں حاصل کرنے کے بعد وڈیرے بجٹ کے پیسے ہتھیا کر اپنے انتخابی حلقوں سے رفو چکر ہو کر کراچی، اسلام آباد اور دبئی میں قیام پزیر ہو کر اقتدار کے مزے اُڑاتے ہیں اور عیاشیاں کرتے ہیں اور غریب ووٹر اور کارکن اپنے مسائل کے حل کے لیے وڈیروں کے بنگلوں کے چکر کاٹ کاٹ کر تھک گیا ہے۔ جب تک وزارتیں اور ارکان اسمبلی کو پیپلز پارٹی کے تنظیمی عہدوں سے ہٹا کر انہیں تنظیم کے سامنے جوابدہ نہیں کیا جائے گا اور جدوجہد شرافت اور قربانی اور صادق امین ہونے کی بنیاد پر عہدے تقسیم نہیں کیے جائیں گے گڈ گورننس اور تنظیمی بالادستی ناممکن ہے۔ پیپلز پارٹی اپنے منشور طاقت کا سرچشمہ عوام سے منحرف ہو کر دولت اور وڈیرے کو طاقت کا سرچشمہ بنا رکھا ہے جو پارٹی کی بدنیتی ہے آئو سندھ کے ہمدرد، محبتی شہید بھٹو اور شہید رانی جانثار کارکن ایک پرچم تلے جمع ہو، اپنے دلوں سے مفاد پرستی، نسل پرستی، ضمیر فروشی، چمچہ گیری اور کرپشن کے بت توڑ کر طاقت کے سرچشمے عوام کی تھیوری کو اپنا کر شہید رانی اور شہید بھٹو کی پیپلز پارٹی کو بچائو۔