ایمل کاسی اور ممتاز قادری کی بد دعائیں

186

zc_JawedAKhanمثل مشہور ہے ’’مشرق کی گھٹا اور مظلوم کی آہ کبھی خالی نہیں جاتی‘‘ ہماری اپنی زندگیوں میں اس کے مشاہدات تو ہوتے رہتے ہیں۔ اجتماعی زندگی میں بھی ہم نے اس کے مظاہر دیکھے ہیں مکافات عمل بھی کہہ سکتے ہیں، آپ اس کو جیسی کرنی ویسی بھرنی بھی کہہ سکتے ہیں یا جو بویا وہ کاٹا بھی کہہ سکتے ہیں معنوی اعتبار سے تو ایک دوسرے کے قریب تر ہیں۔ لیکن دعا اور بد دعا کا معاملہ الگ ہے پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کی امنگوں کا مظہر تھا اسے عین نوجوانی میں قتل کردیا گیا پاکستان اور اس کے چاہنے والوںکی بددعائیں بھی رنگ لائی ہوں گی پاکستان کو اپنوں ہی نے اقتدار کی لالچ میں توڑا۔ اس کے جو تین خاص ذمے داران بتائے جاتے ہیں وہ اندرا گاندھی، شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو ہیں اندرا گاندھی کو خود اس کے حفاظتی دستے کے اہل کاروں نے قتل کیا، شیخ مجیب الرحمن کو اس کی اپنی فوج پورے خاندان سمیت قتل کیا اور اس کی لاش 36گھنٹے تک اس کے مکان کی سیڑھیوں پر پڑی رہی، ذوالفقار علی بھٹو کو اپنی ہی پارٹی کے ایک ساتھی کے قتل کے جرم میں سزائے موت ہوئی۔
بھٹو صاحب کے دور اقتدار میں اسلامی جمعیت طلبہ کے ایک ساتھی محمد رفیق کو جو پولیس سے تصاد م میں زخمی ہو گئے تھے ہسپتال لایا گیا ہسپتال کی انتظامیہ کو نامعلوم ٹیلی فون آیا جس کے بعد اس کو ابتدائی طبی امداد نہیں دی گئی اور اس نے ہسپتال کے بستر پر تڑپ تڑپ کر جان دے دی یہ واقعہ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں مولانا مودودی کا اس کے اوپر بہت سخت بیان آیا کہ میں نے آج تک کسی کو بددعا نہیں دی لیکن آج میں یہ بد دعا دیتا ہوں کہ اللہ تعا لیٰ موجودہ حکمرانوں کو ان کی آنکھوں کے سامنے ان کا زوال دکھائے اور یہ کہ جب ان کی حکومت ختم ہو تو ان کو کوئی رونے والا بھی نہ ہو۔ بھٹو صاحب کی جب حکومت ختم ہوئی تو کچھ عرصے بعد کہیں پی پی پی کا کوئی مظاہرہ ہوا جس میں مظاہرین کو دکھایا گیا کہ وہ رورہے ہیں کسی نے مولانا مودودی کو وہ تصویر دکھا کر کہا کہ آپ تو کہتے تھے کہ اس حکومت کو کوئی رونے والا بھی نہیں ملے گا اس تصویر میں تو لوگ روتے ہوئے نظر آرہے ہیں مولانا نے جواب دیا یہ لوگ بھٹو حکومت کے لیے نہیں اپنے پیٹ کے لیے رو رہے ہیں۔
یو ٹیوب پر ایمل کاسی کا ایک انٹرویو ہے جس میں اس نے اعتراف کیا ہے کہ اس نے سی آئی اے کے دو افسران کو قتل کیا تھا جب اس سے پوچھا گیا کہ اس نے یہ قتل کیوں کیا تو اس کا کہنا تھا امریکا مسلمانوں کا دشمن نمبر اول ہے دنیا میں ہر جگہ مسلمانوں کو جانی ومالی نقصان پہنچانا اس کا اولین مقصد رہتا ہے اسی طرح کی اور باتیں تھیں اس کا مقصد یہ تھا کہ جس دائرے میں وہ اپنے دل کی بھڑاس نکال سکتا تھا اس نے نکالا یہ بالکل اسی طرح ہے کہ جیسے ہمارے یہاں ریاست پاکستان کے کچھ مخالف مسلح گروہ پولیس افسران کا قتل کرتے ہیں رمضان کے آخری دنوں میں سائٹ کراچی میں حبیب بینک کے نزدیک عین افطار کے وقت ایک اے ایس آئی سمیت چار پولیس والوں کو سر کا نشانہ لگا کر گولی ماری وہ چاروں موقعے مر گئے مارنے والوں کو ان پولیس والوں سے کوئی دشمنی نہیں تھی انہوں نے ریاست کو نشانہ بنایا۔ ایمل کاسی بھی اسی طرح کا جذباتی مسلمان تھا بہرحال اس نے جو جرم کیا وہ غلط تھا لیکن ریمنڈ ڈیوس نے بھی تو ایک جرم کیا تھا اور دو افراد کو قتل کیا تھا پوری امریکی ریاست کس طرح اپنے قاتل کو بچانے کے لیے متحرک ہو گئی اور ہمارے یہاں کی صوبائی، وفاقی حکومت اور تمام ایجنسیاں انصاف دلانے کے بجائے مقتولین کے گھر والوں پر یہ دبائو ڈالتے رہے کہ وہ خوں بہا قبول کرلیں حالاں کہ اسلام میں خوں بہا کی پہلی اور بنیادی شرط یہ ہے کہ اس میں مقتولین کے وارثوں کی آزادانہ رضامندی ضروری ہے۔ ایمل کاسی کے معاملے میں ہم اتنے فعال نہ ہوتے اگر ہم ریمنڈ ڈیوس کی طرح اس کی مدد نہ کرتے بلکہ اس سے الگ تھلگ رہتے لیکن شاید ہم ایسا نہیں کرسکتے تھے کہ ہم نے امریکی غلامی کا لبادہ اوڑھا ہوا ہے اسی لیے اس کے قاتل مجرم کو چھڑانے اور اپنے مجرم کو پکڑوانے میں سر دھڑ کی بازی لگا دیتے ہیں چوں کہ اس وقت نواز شریف صاحب وزیر اعظم تھے تو کیا ایمل کاسی کے دل سے نواز شریف صاحب کے بددعائیں نہ نکلی ہوں گی۔
ایمل کاسی سے زیادہ بڑا جرم ممتاز قادری کو اچانک راتوں رات خاموشی سے پھانسی پر چڑھا دینا تھا ممتاز قادری نے سابق گورنر پنجاب کو قتل کیا تھا سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر توہین رسالت کا مرتکب ہو اتھا اس نے ناموس رسالت کے قانون کو نعوذ باللہ کالا قانون کہا تھا لیکن عوامی حلقوں کے شدید مطالبے کے باوجود اس کے خلاف ایف آئی آر نہیں کاٹی گئی۔ یہ ممتاز قادری جیسے لوگ کیسے پیدا ہوتے ہیں اس لیے کہ آج تک کسی توہین رسالت کے مجرم کو سزا نہیں دی گئی، توہین رسالت کے ایک مجرم کو بھی سزا دے دی جاتی اور دیگر توہین رسالت کے دیگر ملزمان کے مقدمات کو جلد از جلد مکمل کر لیا جاتا تو یہ موجودہ حکومت کا ایک بہترین کارنامہ ہوتا۔
ممتاز قادری کو جتنی جلدی اور جتنی خاموشی سے سزا دی گئی کہ کسی ہوا تک نہ لگے لیکن اس کے باوجود جنازے میں جو ریکارڈ تعداد میں لوگ آئے تھے اس نے ممتاز قادری کے جنازے کو ملک کے بڑے بڑے جنازوں میں شامل کردیا اور اس جنازے کی خاص بات یہ تھی میڈیا میں کوئی خبر نہیں دی گئی اس کے باوجود لوگ بڑی دور دور سے جوق در جوق آئے‘ یہی صورت حال حکومت کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہونا چاہیے تھا۔ پاکستانی مسلمانوں کا چاہے وہ کتنے ہی گناہ گار ہوں اپنے نبی آخری الزماں جناب محمد مصطفی ؐ سے جو عشق اور محبت اس کو کسی بھی پیمانے سے ناپا نہیں جا سکتا ممتاز قادری کے جنازے میں حاضری اسی جذبے کی وجہ سے تھی۔
نواز شریف صاحب جو اپنے آپ کو ضرورت سے زیادہ پر اعتماد ظاہر کرنے کی کوشش کرتے رہتے ایسی ہی الٹی سیدھی خلاف اسلام حرکتیں کرتے رہتے ہیں بے نظیر صاحبہ کے پہلے دور حکومت یہ خبریں آنا شروع ہوئیں کہ جمعہ کی چھٹی ختم کرکے اتوار کی چھٹی کی جارہی ہے تو اس پر ن لیگ سمیت تما م سیاسی و دینی جماعتوں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا یہاں تک کہ حکومت کو یہ بیان دینا پڑا کہ جمعہ کی ہفتہ وار چھٹی ختم کرنے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے۔ لیکن جب نواز شریف برسر اقتدار آئے تو انہوں نے اپنی پہلی تقریر میں جمعہ کی چھٹی ختم کرنے کا اعلان کردیا اس پر دینی جماعتوں نے اپنے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔
پاناما کیس کے حوالے سے وزیر اعظم نواز شریف صاحب کا یہ موقف کہ وہ کسی صورت میں استعفا نہیں دے گے شکست خوردگی کی نشان دہی کرتی ہے ویسے بھی ان کی بدن بولی ان کی زبان کا ساتھ نہیں دے رہی حالاں کہ وہ اور ان کی پارٹی کے لوگ اب تک یہ کہتے رہیں کہ وہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو دل وجان سے مانیں گے جے آئی ٹی کی تحقیقاتی رپورٹ تو ابھی عدالت عظمیٰ میں پیش کی گئی ہے۔ ابھی اس کے اوپر تو ن لیگ کے وکلا اپنے دلائل دیں گے پھر اس کے بعد عدالت کا کوئی فیصلہ آئے گا۔ لیکن وقت سے پہلے واویلا مچانا درست نہیں جہاں تک اپوزیشن کا تعلق ہے وہ تو استعفے کا اس لیے مطالبہ کر رہیں کہ ان کی کہنا ہے جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد نوازشریف صاحب کو اخلاقی طور پر مستعفی ہو جانا چاہیے لیکن آج کل حکومت کا وقار جس طرح مجروح ہو رہا ہے اور نواز شریف کی شخصیت اور ان کا اعتماد متزلزل ہورہا ہے وہ اب اسی بات کی نشاندہی کررہی ہیں کہ نواز شریف صاحب نے یقینا بہت اچھے کام بھی کیے ہوں گے لیکن ٹی وی پر ان کا اترا ہوا چہرہ دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ کچھ مظلوموں کی بددعائیں ان کا پیچھا کررہی ہیں۔