پانی میں انسانی فضلہ

219

Edarti LOHپاکستانی قوم سیاسی کرپشن اور حکمرانوں کی لوٹ مار کے انکشافات سے حیران تھی کہ سندھ آبی کمیشن کی کارروائی کے دوران ہولناک انکشاف نے لوگوں کی نیندیں اڑادی ہیں۔ کمیشن کے اجلاس کے دوران رپورٹ پیش کی گئی کہ سندھ میں پانی کے 83 فی صد نمونے انسانی جان کے لیے خطرناک ثابت ہوئے ہیں۔ اور اس پانی میں انسانی فضلہ بھی پایا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق کراچی میں پینے کے پانی کے 33 فی صد نمونوں میں انسانی فضلے کے اجزا ملے ہیں جب کہ ٹھٹھہ میں یہ کیفیت 75 فی صد نمونوں کی ہے۔ بھٹو خاندان کے گھر لاڑکانہ میں سب سے زیادہ 88 فی صد نمونوں میں پینے کے پانی میں انسانی فضلہ موجود ہونے کی رپورٹ ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق حیدر آباد میں بھی 42 فی صد نمونوں میں انسانی فضلہ شامل ہے۔ اب پاکستانی قوم حکمرانوں کی لوٹ مار کے انکشافات اور حکومتوں کی تبدیلی کے حوالے سے عدالتی فیصلے کا انتظار کرے یا پھر اپنے روزمرہ کے معاملات اور کھانے پینے کے معاملات میں زندگی کے حوالے سے تشویش کو دور کرے۔ حکمرانوں کا تو یہ معاملہ سرے سے ہے ہی نہیں۔ کیونکہ جب ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم تھے تو ساری قوم جانتی تھی کہ ان کے پینے کا پانی پیرس سے آتا تھا اور پینے کے دوسرے ’’مشروب‘‘ لندن سے۔ بھٹو، بے نظیر اور آصف زرداری کے ادوار میں لاڑکانہ کو لندن و پیرس کے برابر بنانے کے دعوے کیے جاتے رہے۔ لیکن حالت یہاں تک آپہنچی ہے کہ لاڑکانہ میں پانی کے 88 فی صد نمونوں میں انسانی فضلے کی آمیزش پائی گئی۔ یہ رپورٹ کسی سیاسی جماعت کی نہیں یہ کسی حکومت مخالف مہم کا حصہ نہیں بلکہ حکومتی اداروں نے یہ نمونے حاصل کیے اور حکومتی لیباریٹریوں میں ہی یہ ٹیسٹ ہوئے ہیں۔ یہ بات بھی تشویش ناک ہے کہ ناقص اور آلودہ پانی کی رپورٹس آج ہی سامنے نہیں آئی ہیں بلکہ کئی ماہ قبل بھی اسی عدالتی کمیشن میں ناقص پانی کی فراہمی اور زہریلے اور آلودہ پانی کا انکشاف ہوا تھا۔ لیکن حکمرانوں کا حال یہ ہے کہ کوئی بھی انکشاف ہوجائے وہ نوٹس لینے اور ہدایات دینے کی خبریں جاری کرنے سے زیادہ کچھ نہیں کرتے۔ ایک طرف یہ حال ہے اور اس صورتحال کی اصلاح میں کسی حد تک حصہ ادا کرنے کے ذمے دار کراچی کے میئر وسیم اختر ایک اپوزیشن لیڈر والا بیان دے رہے ہیں ایسا لگ رہا ہے کہ کوئی اپوزیشن لیڈر حکومت پر تنقید کر رہا ہو یا اس سے کوئی مطالبہ کر رہا ہو۔ انھیں صرف اختیارات کی عدم موجودگی کا قلق ہے۔ کہتے ہیں کہ شہر تباہ ہوگیا، حکمرانوں کو کوئی فکر نہیں۔میئر صاحب کا فرمانا تو بجا ہے لیکن آپ اتنی سر توڑ کوششوں کے بعد کراچی کے میئر بنے ہیں۔ کراچی کو آلودہ پانی فراہم کیا جارہاہے، شہر بارش میں ڈوب رہا تھا تو آپ لندن یاترا میں مصروف تھے۔ میئر صاحب نے بارش کی پیشگوئی کے حوالے سے رین ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کردیا اور بس۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوگا۔ پانی کی فراہمی کے حوالے سے ایک اور سنگین خبر یہ ہے کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کو پانی کی فراہمی کے بڑے ذخیرے راول ڈیم میں زہرملانے کی اطلاعات ہیں۔ یہ مخمصہ اپنی جگہ ہے کہ زہر ملایا گیا یا نہیں، سرکاری بیان تو یہی ہے کہ زہر ملانے کے شواہد نہیں ملے۔ لیکن پاکستان کا حال تو یہ ہے کہ آج تک کسی جرم کے شواہد نہیں ملے۔ تاہم اس حوالے سے عوام کو مطمئن نہیں کیا جاسکا کہ پھر ہزاروں مچھلیاں کیسے مر گئیں؟۔ یہاں تو کراچی میں دو سال قبل ہزاروں افراد کے گرمی سے مرجانے کے ذمے داران کے بارے میں کوئی شواہد نہیں ملے تو راول ڈیم میں زہر ملانے کے شواہد کیسے مل سکیںگے۔