ایک غیر سنجیدہ کالم

175

zcl_muftiMuneebہمارے وہ کرم فرما جو بحر پاناما میں غوطہ زن ہیں اور جے آئی ٹی جو گوہر نایاب لے کر آئی ہے،اس پر داد وتحسین کا لا متناہی سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں یا وہ جو اسے ردی کی ٹوکری کی غذا قرار دے رہے ہیں، وہ اس کالم کو ہرگز نہ پڑھیں۔ یہ انہیں بے مزہ بلکہ بد مزہ کردے گا۔ آپ پر لازم ہے کہ آپ ٹیلی ویژن اسکرین کے ساتھ جڑے رہیں، بوریت محسوس ہو تو چینل بدل لیں اور اخبارات کا بالاستیعاب مطالعہ کریں، یہ ہماری قومی تاریخ کا اہم موڑ ہے، اس کا ایک ایک پل اور ایک ایک منظر آپ کے دماغ کی اسکرین پر اور ذہنِ رساکے خزینۂ معلومات میں محفوظ رہنا چاہیے۔ اسی طرح اخبارات میں اس موضوع پر لکھا ہوا ہرہر لفظ آپ کو از بر ہونا چاہیے، قوموں کی تاریخ میں ایسے انقلابی موڑ کم کم آتے ہیں۔ عزت مآب جناب جسٹس اعجاز افضل خان نے نہایت درست کہا تھا کہ ان کا صادر کیا ہوا فیصلہ سو سال تک یاد رکھا جائے گا۔ سو سال بعد کیا ہوگا، اس کا علم تو عالم الغیب اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے پاس ہے۔ ہمیں تو چوبیس گھنٹے بعد آنے والے کل کی بھی خبر نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ اس کی موت کس جگہ واقع ہوگی، بے شک اللہ ہی خوب جاننے والا بہت باخبر ہے، (لقمان: 34)‘‘۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ہمیں اگلے پل کی بھی خبر نہیں ہے، ہماری یقینی متاعِ حیات فقط لمحۂ موجود ہے۔ لیکن اس وقت جو قیامت کا منظر بپا ہے، وہ یقینا دیدنی ہے، ہر سو شور مچا ہوا ہے، آئینی وقانونی ماہرین، تجزیہ کاروں، اینکر پرسنز اور سیاسی رہنمائوں کی طلب میں بے پناہ اضافہ ہوچکا ہے۔
مگر اس سارے بارونق منظر سے لطف اندوز نہ ہونے کا سبب ہماری بد ذوقی ہے، اسی بنا پر ہمیں ٹیلی ویژن کے خبر نامے کی ہیڈلائنز، اخبارات کی جلی سرخیوں، جھلکیوں اور ٹیلی ویژن اسکرین کے نیچے چلنے والے ٹکرز پر اکتفا کرنی پڑنی ہے، اس سے آگے ہماری ذہنی قوتِ ہاضمہ جواب دے دیتی ہے، کسی نے کہا تھا: ’’خط کا مضمون بھانپ لیتے ہیں لفافہ دیکھ کر‘‘۔ ہم زبان وبیان کی اصلاح، اسلوبِ نگارش کی آموختگی اور اندازِ تحریر کی چاشنی سے لطف اندوز ہونے کے لیے بعض کالم پڑھ لیا کرتے تھے، مگر آج کل چونکہ گنگا الٹی نہیں بہہ رہی بلکہ ناک کی سیدھ میں مرکزی دھارے پر بہہ رہی ہے، اس لیے طبیعت جلد اکتا جاتی ہے اور نظریں جمائے رکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس لیے ہم حلفیہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے نہ کوئی خبر نامہ مِن وعَن دیکھا اور سنا ہے اور نہ کوئی خبر بالاستیعاب پورے متن کے ساتھ پڑھی ہے، اس لیے اس بارے میں ہماری معلومات ناقص وناتمام ہیں، البتہ انقلاب آگیا تو سب کے ساتھ ہم بھی دیکھ لیں گے۔ کسی نے بال تراشنے والے حجام سے پوچھا تھا: ’’میرے سر پر کتنے بال ہیں، اس نے جواب دیا: تھوڑی دیر میں سب بال گود میں آجائیں گے، خود گن لینا‘‘۔
پس ہم اس پورے منظر سے ہٹ کر ٹکرز سے استفادہ کرتے ہوئے آپ کو آنے والے وقت سے خبر دار کرنا مناسب سمجھتے ہیں۔ ایک ٹکر میں درج تھا: ’’جے آئی ٹی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شریف خاندان کارہن سہن اور لائف اسٹائل ان کی آمدنی سے مطابقت نہیں رکھتا‘‘۔ تحقیق وتفتیش اور عدلِ جہانگیری ونوشیروانی کا یہ معیار معاشرے کے تمام طبقات کی ایک بہت بڑی تعداد کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس وقت تو شریفوں کی گردن پھنسی ہوئی ہے، کیوںکہ پھندا اسی میں فٹ آگیا ہے، مگر اس سے دوسروں کا بچ نکلنا بھی آسان نظر نہیں آتا۔ سیاست دان، سابق وموجودہ بیوروکریٹس، ماتحت عدلیہ کے جج صاحبان ودیگر عملہ، صنعت کار، سرمایہ دار، تاجر، زمیندارو جاگیردار ، پیر، میر، فقیر، واعظین، خطباء وذاکرین، عاملین، گلوکار، نعت خواں و قوال وغیرہ اور معاشرے کے دیگر طبقات، الغرض شاید ہی کوئی بچ سکے۔ ذرا رک کر سمجھنے کی کوشش کیجیے، ذرائع آمدنی سے مراد قانونی آمدنی ہے، جو آپ نے اپنے انکم ٹیکس ریٹرن میں درج کی ہوئی ہے، جسے عرف عام میں سفید دھن کہا جاتا ہے، یہاں شرعی معیار پر حلال آمدنی مراد نہیں ہے۔ بس تھوڑا سا انتظار کیجیے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان اس رپورٹ کو مِن وعَن سند قبولیت وتوثیق عطا کر کے اپنے حتمی فیصلے کا حصہ بنائے۔ آپ جہاں بھی رہتے ہیں، ذرا اپنے اردگرد پوری گہرائی وگیرائی سے جائزہ لیجیے، آپ کو بہت بڑی تعداد میں ایسے مجرمین نظر آئیں گے، جن کا لائف اسٹائل ان کی انکم ٹیکس ریٹرن میں ظاہر کردہ آمدنی سے مطابقت نہیں رکھتا۔ بس ضرورت اس امر کی ہے کہ ٹریفک سارجنٹ کے ساتھ ایک انکم ٹیکس کا کارندہ اور ایک قومی ادارۂ احتساب کا نمائندہ ہونا چاہیے، جو بڑی کار دیکھے تو ڈرائیونگ لائسنس سے پہلے اس کا انکم ٹیکس ریٹرن دیکھے اور مطابقت نظر نہ آئے تو گاڑی سمیت دھرلے،کئی JITsبنانی پڑیں گی اور روزگار کے بے شمار مواقع پیدا ہوں گے۔ ہر مکان کے مکینوں کا جائزہ لے، تمام پرتعیش اسٹورز پر جائزہ لینے والے موجود ہوں، ریاست کا بھلا ہوگا، معاشرے میں برپا ہونے والی ابتری کو سردست چھوڑیے، پھر کسی نے 1990ء میں کوئی مکان بالفرض پانچ لاکھ روپے میں بنایا ہے، تو نیب اور انکم ٹیکس والے آج کی مارکیٹ میں اس کی قیمت پا نچ کروڑ لگا سکتے ہیں، دیجیے حساب اور سرخرو ہوجائیے۔ گزشتہ ہفتے میں ایک دوست کی صاحبزادی کے نکاح کی تقریب میں شرکت کی خاطر تین دن کے لیے دبئی گیا تھا، لوگوں نے بتایا کہ بے شمار پاکباز وپاک دامن لوگوں کے اثاثے وہاں موجود ہیں، متحدہ عرب امارات، ملائشیا، برطانیہ، امریکا وکیینڈا کی داستانیں اس سے الگ ہیں۔
میں آپ کو ایک لطیفہ نہیں بلکہ حقیقی واقعہ بتارہا ہوں: ’’میں اپنے دو سو مربع گز کے مکان میں، جو پنجاب کے سات مرلے سے کچھ کم رقبہ ہے، فرسٹ فلور پر رہتا ہوں، ہماری گرائونڈ فلور پر ایک ہمارے کرایہ دار رہتے ہیں۔ انہوں نے کافی دنوں سے اپنے ایک دوست کی قیمتی گاڑی جس کی قیمت ڈیڑھ کروڑ روپے بتائی جاتی ہے، ہمارے مکان کے متصل خالی پلاٹ پر کھڑی کی ہوئی ہے اور کبھی میرے مین گیٹ کے سامنے کی جگہ خالی ہو تو وہاں لاکر کھڑی کردیتے ہیں۔ ہم خود حیران ہیں کہ ڈیڑھ کروڑ کی گاڑی ہے اور مالک کے پاس اپنے مکان میں یا مکان سے باہر اس کے کھڑے کرنے کے لیے جگہ نہیں ہے، جب کہ میرے مکان کی موجودہ مالیت سے بھی اس کار کی قیمت ڈبل بتائی جارہی ہے، واللہ اعلم بالصواب، مبالغہ بھی ہوسکتا ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ گزشتہ جمعۃ المبارک کو دو منچلے لڑکے نمازِ جمعہ کے لیے جارہے تھے، انہوں نے اپنی دو رکنی جے آئی ٹی بنائی اور گاڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: ’’دیکھو تو سہی! مولوی اور یہ گاڑی‘‘۔ اس جملے کے دو معنی ہوسکتے ہیں: ایک یہ کہ ایسی گاڑی تو کسی کلکٹر کسٹم یا انکم ٹیکس انسپکٹر یاکم از کم ایس ایس پی پولیس یا کسی بڑے تاجر وصنعت کار یا کسی اسمگلر کے دروازے کے باہر ہی نظر آنی چاہیے، یہاں اس کا کیا جواز ہے؟۔ دوسرا یہ کہ مولوی نامی مخلوق کا یہ استحقاق کہاں کہ اس جیسی گاڑی کا مالک بنے، اس کے لیے اگر گاڑی ضروری ہی ہو تو کوئی کھٹارا قسم کی ہونی چاہیے یا اس کے لیے موٹر سائیکل بھی بسا غنیمت ہے‘‘۔ میں سوچ رہا تھا کہ اگر کوئی میرے دروازے کے باہر کھڑی اس گاڑی کی تصویر بناکر خدانخواستہ سوشل میڈیا پر پوسٹ کردے تو میں کس کس کو مطمئن کروں گا اور کیسے کروں گا۔ ائر پورٹ پر اکثر لکھا دیکھا ہے: ’’کوئی مشتبہ چیز پڑی نظر آئے تو فوراً سول ایوی ایشن کے عملے یا ائرپورٹ سیکورٹی فورس کو مطلع کریں‘‘۔ سو میں مطلع کر رہا ہوں، اگر کوئی اس گاڑی کی بنیاد پر کسی کے خلاف کارروائی کرنا چاہے تو ضرور کرے، مگر مجھے معاف رکھے۔ اسی طرح جو قربانی کے ایام آرہے ہیں، احتساب کے اداروں کو وہاں اپنے دفتر قائم کرنے چاہییں، جن کے ساتھ ایف بی آر کا بھی نمائندہ ہو اور جو کوئی دس لاکھ سے پچیس لاکھ تک کا جانور خریدے، ایف بی آر کے ریکارڈ سے اس کی آمدنی اور اس کی مناسبت کا جائزہ لے اور یہ کہ آیا اس میں ان قربانیوں کا حوالہ کہیں موجود ہے۔ وہاں پر اسٹاک ایکسچینج کو زیر وبر کرنے والے اہل ثروت کی کروڑوں کی قربانیوں کے نظارے کا بھی موقع ملے گا۔
باقی اس منظر میں سب کے لیے درسِ عبرت ہے۔ یہاں کی عدالت اور احتساب کا تو بعض لطف اٹھا رہے ہیں اور بعض کی ٹیسیں اٹھ رہی ہیں۔ ذرا سوچیے! بندہ انسانوں کے بنائے ہوئے شکنجۂ احتساب یا انتقام میں پھنس جائے تو بچ نکلنا کس قدر دشوار ہے اور پنجرے میں کتنا تڑپتا اور پھڑپھڑاتا ہے، اگرخداوندِ جبّار و قہّار وقَوِیّ ومُقتدِر اور مُقسِط، جس نے خود اپنی شان ’’عَزِیْزٌ ذُوانْتِقَام‘‘ (غالب انتقام لینے والا) بتائی ہے، جب اُس کی عدالت میں احتساب ہوگا اور جواب طلبی ہوگی تو بچ نکلنا کس قدر دشوار ہوگا، جب کہ اُس نے یہ بھی فرمایا: ’’بے شک تمہارے پروردگار کی گرفت بڑی سخت ہے، (البروج: 12)‘‘۔
چنانچہ امیر المومنین سیدنا عمر فاروق ؓ نے اپنے ایک خطبے میں ارشاد فرمایا تھا: ’’تم خود ہی اپنا حساب کرلو، قبل اس کے کہ خداوندِ قادر وقیّوم کی عدالت میں تمہارا حساب لیا جائے اور اپنے (خیر وشر) کا وزن خود کرلو، قبل اس کے کہ آخرت کے میزانِ عدل میں تمہارے نامۂ اعمال کو تولا جائے اور سب سے بڑی پیشی کے لیے اپنے آپ کو تیار کرلو، جس دن کہ تمہیں وہاں پیش کیا جائے گا اور پھر تمہاری کوئی چیز پوشیدہ نہیں رہے گی، (مصنف ابن ابی شیبہ)‘‘۔ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’کیا تم نے یہ گمان کر رکھا تھا کہ ہم نے تم کویوں ہی بے مقصد پیدا فرمایا ہے اوریہ کہ تم ہماری طرف لوٹائے نہیں جائو گے، پس اللہ سچا بادشاہ، اس سے بہت بلند ہے (کہ وہ بے مقصد کام کرے)، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور وہی عزت والے عرش کا مالک ہے، (المومنون: 115-116)‘‘۔