سی پیک کے خلاف سازشیں

303

Edarti LOHگزشتہ دو روز کے دوران پاک فوج کی جانب سے سی پیک کے حوالے سے اہم بیانات بڑے معنی خیز تصور کیے جارہے ہیں۔ ایک دن آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ سی پیک کو ہر حال میں مکمل تحفظ فراہم کیا جائے گا، لیکن دو روز بعد چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی نے چشم کشا انکشاف کیا ہے۔ اگرچہ اس حقیقت سے دنیا واقف ہے کہ بھارت اور اس کی خفیہ ایجنسیاں پاکستان کے خلاف مہم میں مصروف رہتی ہیں لیکن چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کی جانب سے اس کا برملا اعلان کہ ’’را‘‘ سی پیک کے خلاف افغانستان سے کام کررہی ہے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ جنرل زبیر حیات نے پاک بحریہ کی پاسنگ آئوٹ پریڈ کے موقع پر کہا کہ دشمن کے عزائم سے پوری طرح آگاہ ہیں، انہوں نے پاک بحریہ کی جانب سے سی پیک اور گوادر پورٹ کے تحفظ کے لیے خصوصی ٹاسک فورسز کے قیام پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے افغانستان میں امن کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ افغانستان اس خطے کی سلامتی کے لیے ناگزیر ہے۔ تاہم پاک فوج کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں بے گناہوں کے قتل پر محض تشویش کا اظہار کافی محسوس نہیں ہوا۔ پاک فوج کی جانب سے سی پیک کے تحفظ کی یقین دہانی اگرچہ ایک جانب خوش آئند ہے تو دوسری جانب اس بات کا اعلان کہ پاکستان کے اہم معاشی نوعیت کے اس منصوبے کو ہر حال میں جاری رکھا جائے گا یہ اعلان دراصل اس منصوبے سے فائدہ اٹھانے والے عوامی جمہوریہ چین کے لیے پیغام ہے کہ پاکستان میں حکومت کی تبدیلی سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اور پاکستان کے ادارے اس منصوبے کو ہر حال میں جاری رکھیں گے۔ تا ہم سی پیک کے خلاف سازشوں کا محض انکشاف کافی نہیں بلکہ ان کا سدباب بھی ضروری ہے۔ جس طرح پاکستان میں آپریشن ضرب عضب، ردالفساد اور اس طرح کے دوسرے آپریشن بھرپور طریقے سے کیے گئے اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سب کے سب مکمل طور پر کامیاب بھی رہے ہیں تو پھر کشمیر کے عوام اب اسی قسم کے کسی آپریشن کے منتظر ہیں جو ان کو بھارتی مظالم سے نجات دلائے۔ کشمیریوں کے بارے میں محض تشویش کا اظہار تو پاکستان کی سیاسی جماعتیں اور سویلین حکومتیں کرتی ہی رہتی ہیں لیکن یہ بات تو سب ہی جانتے ہیں کہ کشمیر کا مسئلہ سیاسی فیصلوں یا سیاسی غلطیوں سے زیادہ فوجی ایکشن کا معاملہ ہے۔ بھارت نے ایک سازشی فیصلے کو غلط معنی پہنا کر فوجی ایکشن کیا تھا جس کے نتیجے میں کشمیر پر آج تک اس کا قبضہ ہے۔ اگر 1948ء میں مجاہدین کشمیر کے اس حصے کو آزاد نہ کراتے جو آج کل آزاد کشمیر کہلاتا ہے تو شاید آج مسئلہ کشمیر کو کوئی جانتا ہی نہ ہوتا اس کا ذکر بھارت کی دوسری ریاستوں میں مسلمانوں اور اقلیتوں کے ساتھ مظالم کی طرح کیا جاتا۔ کشمیر کی موجودہ اور سابقہ صورت حال اس قسم کے کسی آپریشن کی متقاضی ہے۔ تشویش، احتجاج، اظہار یکجہتی، سیاسی اخلاقی اور سفارتی حمایت کو تو 70 برس ہونے کو ہیں لیکن یہ مسئلہ حل ہی نہیں ہوتا۔ مسئلہ اسی طرح حل ہوگا جس طرح پیدا ہوا تھا۔ ورنہ بھارت، امریکا مل کر ایک ایک کرکے ہر کشمیری کو دہشت گرد قرار دلوادیں گے۔ جہاں تک سی پیک کے خلاف سازشوں کی بات ہے تو پاک فوج کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اور پاک فوج کے سربراہ سے زیادہ کون جانتا ہوگا کہ اس کے خلاف سازشوں میں صرف بھارت ملوث نہیں ہے بلکہ اسرائیل کو بھی اس منصوبے سے تکلیف ہے۔ اس حوالے سے اسرائیل ترکی تک پہنچنے والے اس منصوبے سے ترکی کو محروم کرنا چاہتا ہے۔ اس مقصد کے لیے اسرائیل نے امریکا کے تعاون سے عرب ممالک کو رام کرنا شروع کردیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی اہم ہے کہ کیا پورے سی پیک منصوبے کی حفاظت اور اس کو کامیاب بنانے کی ذمے داری صرف پاکستان کی ہے۔ اس سے فائدہ اٹھانے والے دوسرے ممالک بھی اس میں اپنا حصہ ادا کریں۔