مظفر ربانی
’’شریف‘‘ حکمرانوں کے متعدد جرائم پر عدالت عظمیٰ کی جانب سے قائم کردہ ایک قانونی ادارے کا یہ احسان کیا کم ہے کہ اس نے مروجہ طریقہ تفتیش سے گریز کرتے ہوئے انتہائی باوقار اور با عزت طریقے سے شریفوں کو اپنے اوپر لگے الزامات پر صفائی پیش کرنے کے لیے موقع دیا وگرنہ کون نہیں جانتا کہ ایف آئی اے اور اسی طرح کی دیگر ایجنسیاں کس طرز تکلم اور انداز گفتگو سے تفتیش کا آغاز کیا کرتی ہیں یہ تو بڑے شریف صاحب کو یاد ہی ہوگا کہ کراچی کے بچہ جیل لانڈھی میں گریڈ ۷ کے ہیڈ محرر نے کس انداز میں میاں صاحب کا نام اور والد گرامی کا نام پوچھا تھا۔ اتنی عزت دینے کا یارا تو ایک برد بار باعزت اور شریف النفس فرد یا ادارے ہی کو ہوا کرتا ہے کہ ’’ملزم ‘‘ کی حیثیت عرفی کو ملحوظ خاطر رکھا گیا چہ جائیکہ ایک عام ملزم کی طرز کی تفتیش کی جاتی، بہرحال یہ بھی وقت نے ثابت کیا کہ سمندر کی خاموشی نے اپنے ظرف کا مظاہرہ کیا اور برساتی نالے نے اپنا ظرف دکھا دیا اور ایسا شور مچایا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی اور ان کی زبان کی چیرہ دستیوں سے کون سا باعزت ادارہ تھا جو محفوظ رہ سکا ہو، لیکن جے آئی ٹی سمیت کسی ادارے نے انگلی تک نہ اٹھائی، جو کچھ کہا گیا وہ ساری قوم کیا ساری دنیا نے سن لیا اب اس کا اعادہ فضول ہی ہوگا لیکن انسان کا ظرف دو وقت ہی معلوم ہوتا جب اس کا پیٹ خالی ہو اور یا جب اس کا پیٹ بھرا ہو، اگر یہ طوفانِ بلا خیز صرف ان لوگوں کی طرف سے اٹھایا جاتا جو میاں صاحب کی ذات ہی کو اپنی وزارتوں اور عہدوں کا مرہون منت سمجھتے ہیں اور جو کچھ وہ کر رہے تھے کہا جا سکتا تھا کہ یہ اس لیے کیا جا رہا ہے کہ اگر میاں صاحب اقتدار سے سبک دوش کردیے گئے تو ریل کو جیل میں تبدیل ہوتے دیر نہیں لگے گی لہٰذا جتنا کچھ ہو سکے بس میاں صاحب کو مجبور کیا جائے کہ اقتدار سے چمٹے رہیں تا آنکہ اگلے انتخابات کا وقت آجائے یا کوئی اور ’’حادثہ‘‘ رونما ہو جائے لیکن یہاں تو میاں صاحب کے حواریوں کے ساتھ ساتھ ان کے اہل خانہ اور اہل سمدھیانہ سب ہی ایک ہی راگ الاپ رہے تھے تو کس کا کیا مقصد یا منشا ہو سکتا ہے اس کو اس طوفان بلاخیز سے کشید کرنا ہی مشکل ہو گیا ہے۔
کالم کی وسعت اجازت نہیں دیتی کہ مزید تفصیل میں جایا جائے۔ شریف خاندان اور ان کے حواریوں نے سب سے پہلے کیس کا رخ موڑنے کے لیے جو بات کہی وہ کرپشن کی تھی کہ کرپشن تو ثابت ہی نہیں ہوئی، آپ سے کرپشن کا سوال ہی کس نے کیا تھا سوال تو یہ کیا گیا تھا کہ بیرون ملک فیکٹریوں فلیٹ نما محلوں یا محل نما فلیٹوں آف شور کمپنیوں کی ملکیت اس کی بینی فیشریز جدہ اسٹیل ملز اور اسی طرح کے دیگر کاروبار کے لیے پیسہ کس طرح باہر گیا پندرہ بیس سال کے بچے کس طرح اربوں پتی بن گئے اور ان کے نام فلیٹ کس طرح منتقل ہو گئے اب ظاہر ہے فلیٹ کی منتقلی سے قبل یہ فلیٹ لا محالہ میاں صاحب یا ان کے والد گرامی کے نام ہی ہوںگے دوسری جانب یو اے ای، انگلینڈ سے یہ جواب آ رہے ہیں کہ کہیں مریم نواز آف شور کمپنیوں کی بینی فیشری ہیں اور وہی فلیٹوں کی مالکہ ہیں پھر بہن بھائیوں کے درمیان جائداد کی منتقلی کا ریکارڈ کدھر ہے۔
جے آئی ٹی کے سوالات کا میاں صاحب نے جوابات دینے سے جس تساہل کا مظاہرہ کیا وہ اب اس اہم ترین رپورٹ کا حصہ بن چکی ہے کہ مستقبل میں جب کبھی میاں صاحب ان جائدادوں آف شور کمپنیوں حدیبیہ پیپر ملز سے لیکر جدہ اسٹیل ملز تک کسی بھی موقع پر تصدیق کی اور یہ کہ کون سی جائداد کون سے بیٹے اور کون سی بیٹی کے نام ہے تو وہاں ان کا جھوٹ پکڑا جائے گا بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ایسا شخص جو تین مرتبہ بیس کروڑ انسانوں کا حکمراں تو بن سکتا ہے مگر اس کو گھر کے معاملات کا علم نہ ہو حسین نواز بر ملا ان فلیٹوں کی ملکیت الحمدُللہ کی برکت سے کہا یہ ہمارے ہیں اور کہیں کہا آف شور کمپنیوں کی بینی فشری الحمدُللہ ان کی ہمشیرہ ہیں۔ یقینا ہوں گی ہم کو اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں قوم تو صرف اتنا معلوم کرنا چاہتی ہے کہ یہ آف شور کمپنیوں میں لگایا ہوا اربوں روپے کا سرمایہ ملک سے کس طرح بیرون ملک منتقل ہوا اور کیا ان خطیر رقوم کو الیکشن میں حصہ لیتے وقت میاں صاحب نے ڈکلیئر کیا تھا؟ مریم صاحبہ ببانگ دہل فرما رہی تھیں کہ ہماری پاکستان میں کوئی جائداد نہیں بیرون ملک کیسے ہو سکتی ہے؟ پتا نہیں یہ میڈیا والے کہاں کہاں سے خبریں نکال لاتے ہیں۔ ایک کے بعد ایک جھوٹ مگر جھوٹ بولنے والے تھک نہیں رہے لگا تار جھوٹ پر ہی بھروسا کیے جا رہے ہیں جب کہ ان کے جھوٹ سر عام پکڑے بھی جا رہے ہیں مگر گوئیبل کے نظریے پر قائم ہیں کہ شاید زیادہ جھوٹ کے جوہڑ سے سچ کا گلاب کھل نکلے مگر فی الحال یہ ممکن نہیں۔ عدالت ثبوت مانگتی ہے میاں صاحب ثبوت! وہ ان باتوں کو نہیں مانتی کہ کس کی پگڑی اچھالنے کی کس کو اجازت دی جے آئی ٹی کے سوالات پر شریفوں کے بے بنیاد جوابات
یا آ پ کے ہٹ جانے سے جمہوریت کو کوئی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے اس کا بندوبست تو شاید پہلے ہی کر لیا گیا ہو کہ میاں صاحب کو چلتا کرو اور جمہورریت کو بھی بچالو آپ کے حواریوں کو بس یہی غم کھائے جا رہا ہے کہ اگر جمہوریت بچ گئی تو ہمارا کیا بنے گا قانون کی عدالت میں تو پھر بھی محفوظ تھے مگر عوام کی عدالت میں !! اس کے باوجود خاکم بدہن اگر جمہوریت ڈی ریل ہوئی تو اس کا سارا ملبہ آپ پر ہی گرے گا اور ساری قوم اس کا ذمے دار آپ کوئی ٹھیرائے گی کہ اگر استعفا دے دیا ہوتا تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی اب بھی وقت ہے شاطروں سے ہشیا ر رہنے کا۔