والیوم 10کھولیں‘ شریف خاندان‘ ضرورت پڑی تو کھولیں گے‘ عدالت عظمیٰ

124

اسلام آباد(نمائندہ جسارت) وزیراعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے مالی معاملات کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ پر عدالت عظمیٰ میں پیر کو پہلی سماعت ہوئی۔سماعت سے قبل وزیراعظم اور وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جے آئی ٹی رپورٹ پر اپنے اعتراضات جمع کروائے۔ شریف خاندان نے جے آئی ٹی رپورٹ کوبدنیتی پرمبنی قراردیتے ہوئے والیوم 10کھولنے کا مطالبہ کیا جس پر عدالت نے کہا کہ ضرورت پڑنے پر جلدنمبر 10کھولیں گے۔وکیل کے توسط سے جمع کرائے گئے اپنے اعتراضات میں وزیراعظم موقف اختیار کیا کہ جے آئی ٹی کو عدالت نے 13 سوالات کی تحقیقات کا حکم دیا تھا لیکن ٹیم نے مینڈیٹ سے تجاوز کیا اور باہمی قانونی معاونت کے لیے برطانیہ میں جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیا کے کزن اختر راجا کی خدمات لی گئیں، جو لندن میں پی ٹی آئی کے کارکن ہیں۔جے آئی ٹی نے بیرونی ممالک سے ہمارے خلاف ثبوت حاصل کرنے کے لیے قومی خزانے کا بے دریغ استعمال کیا۔ جے آئی ٹی کرپشن کے وہ ثبوت لے آئی ہے جس کا مینڈیٹ عدالت نے اسے فراہم ہی نہیں کیا تھا۔ وزیراعظم نے جے آئی ٹی میں شامل آئی ایس آئی کے نمائندے پر بھی اعتراض اٹھایا اور موقف اختیار کیا کہ تشکیل کے وقت آئی ایس آئی کا نمائندہ اپنے ادارے میں حاضر سروس افسر نہیں تھا اوراس کا بطور سورس تعیناتی کا انکشاف ہوا ہے اور سورس ملازم کی قانونی حیثیت نہیں ہوتی جبکہ سرکاری دستاویزات میں نمائندے کی تنخواہ کا بھی ذکر نہیں۔اعتراض میں کہا گیا کہ رپورٹ میں وزیراعظم کی ذات اور نوکری سے متعلق حقائق تصوراتی اور وزیر اعظم کے خلاف شہادتیں عدالتی اختیارات استعمال کرنے کے مترادف ہیں جبکہ تمام تفتیشی عمل متعصبانہ، غیر منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ہے۔عدالت قرار دے چکی ہے کہ شفاف تحقیقات کے بعد ٹرائل بھی شفاف ہوگا، یہ بھی کہا گیا کہ مدعا علیہان کے ٹرائل کے لیے قانون کے مطابق مواد حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔وزیراعظم نے اپنے اعتراض میں کہا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ نامکمل اور نقائص سے بھرپور ہے جبکہ جے آئی ٹی نے عدالت کے سامنے کہا کہ مکمل رپورٹ جمع کروائی جا رہی ہے تاہم نامکمل رپورٹ کے باعث مدعا علیہان کے خلاف آرڈر پاس نہیں کیا جاسکتا، شفاف ٹرائل مدعا علیہان کا بنیادی حق ہے۔وزیراعظم کے مطابق جے آئی ٹی جانبدار تھی اور اس نے قانونی تقاضوں کو پورا نہیں کیا، لٰہذا عدالت عظمیٰ سے استدعا ہے کہ ہماری درخواست منظور کرتے ہوئے رپورٹ کو مسترد کیا جائے۔ساتھ ہی استدعا کی گئی کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کی جلد نمبر 10 کی کاپی فراہم کی جائے۔علاوہ ازیں اسحاق ڈار نے تحریری اعتراض میں موقف اختیار کیا کہ عدالتی حکمنامے میں ان کا ذکر نہیں تھا، اس بنیاد پر جے آئی ٹی رپورٹ مسترد ہونے کی مستحق ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی نے حقائق کو جھٹلا کر غلط بیانی سے کام لیا کہ میں نے ریٹرن فائل نہیں کیے، جے آئی ٹی کے الزامات غلط اور بے بنیاد ہیں، میرے اور میری اہلیہ سے متعلق ٹیکس ریکارڈ کی تفتیش نیب کر چکا ہے، میرے تمام اثاثے جائز اور ریٹرن میں ظاہر ہیں۔ اسحاق ڈار نے استدعا کی کہ ان سے متعلق رپورٹ کے متن کو مسترد کرتے ہوئے ریلیف دیا جائے۔کیس کی سماعت شروع ہوئی تو جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف ، تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے تیزی سے دلائل مکمل کیے۔ جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے کہا کہ وزیر اعظم نے قومی اسمبلی میں قوم سے غلط بیانی کی اور جے آئی ٹی سے تعاون نہیں کیا،انہوں نے قطری خطوط پڑھے بغیر درست قراردیے‘ نوازشریف نے کہا کہ قطری سرمایہ کاری کا علم ہے مگر کچھ یاد نہیں ‘انہوں نے اپنے خالو کوہی پہچاننے سے انکار کیا، نوازشریف کو صادق اور امین نہ ہونے پر نا اہل قرار دیا جائے ۔اس پرجسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ تو ہم نے بھی پڑھی ہے، ٹیم کی فائنڈنگز سارا پاکستان جان چکا ہے، ہم جے آئی ٹی کی فائنڈنگز ماننے کے پابند نہیں ہیں ، آپ کو یہ بتانا ہے کہ ہم جے آئی ٹی فائنڈنگز پر عمل کیوں کریں؟ جسٹس شیخ عظمت نے استفسار کیا کہ ہم جے آئی ٹی کی سفارشات پر کس حد تک عمل کر سکتے ہیں، بتائیں ہم اپنے کون سے اختیارات کا کس حد تک استعمال کرسکتے ہیں ،جس پر توفیق آصف نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں وزیر اعظم کی نااہلی کے لیے کافی مواد ہے، نعیم بخاری جے آئی ٹی رپورٹ کی سمری سے عدالت کوآگاہ کرچکے ہیں ، ہم جے آئی ٹی رپورٹ کو درست تسلیم کرتے ہیں ۔جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ جے آئی ٹی دستاویزات کے ذرائع کیا ہیں؟ کیا ذرائع جانے بغیردستاویزات کو درست قراردیاجاسکتا ہے؟ دیکھنا ہوگا کہ دستاویزات قانون کے مطابق پاکستان منتقل ہوئیں، کیا جے آئی ٹی کی دستاویزات پرعدالت فیصلہ کرسکتی ہے؟ ضرورت پڑنے پر والیم 10 کو بھی کھول کردیکھیں گے۔وزیراعظم کی نااہلی کافیصلہ اقلیت کا تھالیکن جے آئی ٹی اکثریت نے بنائی۔جسٹس اعجازالااحسن نے ریمارکس دیے کہ جے آئی ٹی کی تمام دستاویزات تو تصدیق شدہ نہیں،کیا جے آئی ٹی نے بتایا ہے کہ فنڈز آئے کہاں سے؟پی ٹی آئی وکیل نعیم بخاری نے عدالت سے استدعا کی کہ وزیراعظم نواز شریف کو عدالت طلب کیا جائے تاکہ ان سے جرح کی جاسکے۔کیس کے تیسرے مدعی شیخ رشید نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ ہر کیس کے پیچھے ایک چہرہ ہوتا ہے اور اس معاملے کے پیچھے نواز شریف کا چہرہ ہے، جس عمر میں ہمارا شناختی کارڈ نہیں بنتا ان کے بچے کروڑوں کما لیتے ہیں، جے آئی ٹی رپورٹ شریف خاندان کی بے نامیوں کا جمعہ بازار ثابت ہو چکا ہے، شریف فیملی عام قسم کی مخلوق نہیں ہے، ایک بچے کو سعودی عرب اور دوسرے کو لندن میں رکھا گیا۔قوم کی ناک کٹ گئی کہ وزیر اعظم دوسرے ملک میں نوکری کرتا ہے، نواز شریف کا تنخواہ لینا یا نہ لینا معنی نہیں رکھتا،اب معاملہ ملکی عزت کا ہے، جو ڈھائی گھنٹے بعد اپنے خالو کو پہچانے اس پر کیا بھروسہ کیا جا سکتاہے، پی ٹی وی کا خاکروب 18 ہزار اور وزیر اعظم 5 ہزار روپے ٹیکس دیتا تھا اور تو اور 1500 ریال لینے والے کیپٹن صفدر کے بھی 12 مربعے نکل آئے ہیں،شیخ رشید نے کہا کہ شیخ سعید اور سیف الرحمن نواز شریف کے فرنٹ مین ہیں، شیخ سعید نواز شریف کے ساتھ ہر عرب ملک کی میٹنگ میں ہوتے تھے، ان ملاقاتوں میں پاکستانی سفیروں کو بھی شرکت کی اجازت نہیں ہوتی تھی ، نواز شریف کا تنخواہ لینا یا نہ لینا معنی نہیں رکھتا معاملہ ملکی عزت کا ہے ،حسن نواز حسین اور مریم نواز نواز شریف کے بچے ہیں حمید ڈینٹر کے نہیں ، صدر نیشنل بینک نے تسلیم کیا کہ وہ جعلسازی کرتے پکڑے گئے تھے۔ عدالت 20افراد کو اثاثے چھپانے پر نااہل کرچکی ہے ،ان افراد کو قومی اسمبلی میں بحال کردیں یا نواز شریف کو نااہل قراردے کر جیل بھیجا جائے اور ایسی سزا دی جائے کے سب یاد رکھیں ۔شریف خاندان کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا کہ دستاویزات اکٹھی کرنے میں جے آئی ٹی نے قانون کی خلاف ورزی کی، اپنے اختیارات سے تجاوز کیا اس میں شامل دستاویزات کو ثبوت تسلیم نہیں کیا جا سکتا،جے آئی ٹی عدالتی احکامات سے کافی آگے چلی گئی تھی اور اس نے عدالت کے کرنے والا کام کیا۔جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ اپنے دلائل کوایشوز تک محدود رکھیں تو آسانی ہو گی، چاہتے ہیں عوام اور عدالت کا وقت ضائع نہ ہو ، الزامات اس نوعیت کے تھے کہ تحقیقات کروانا پڑیں اور گواہان کے بیانات ضابطہ فوجداری آرٹیکل 161 کے تحت ریکارڈ کیے گئے۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ شہبازشریف بطورگواہ جے آئی ٹی میں پیش ہوئے تھے،اْن کا بیان صرف تضاد کی نشاہدہی کے لیے استعمال ہوسکتا ہے،شہباز شریف کے بیان کا جائزہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 161 کے تحت لیا جاسکتا ہے۔عدالت کاوقت ختم ہونے پر کیس کی سماعت منگل تک کے لیے ملتوی کردی گئی ، وزیراعظم کے وکیل دلائل جاری رکھیں گے۔