چین کی پیشکش اور بھارت کا استرداد

217

Arif Beharکیا چین نے علاقائی تنازعات میں کردار ادا کرنے کا حتمی فیصلہ کرلیا ہے؟ یہ سوال پہلی بار اس وقت پیدا ہوا جب چین نے برسہا برس سے خانہ جنگی اور شورش کا شکار علاقے کے اہم مسئلے افغانستان کو ایک نئے انداز اور ڈھب سے حل کرنے کی ٹھانی تھی اور مسئلے کے ایک اہم فریق یعنی طالبان مزاحمت کاروں اور افغان حکومت کو اس حل کا حصہ بنانے کا راستہ اختیار کیا تھا گوکہ یہ کوشش پوری طرح کامیاب نہیں ہوئی مگر اسے مکمل ناکام بھی نہیں کہا جا سکتا کیوںکہ چین، کابل حکومت، پاکستان اور طالبان کے ساتھ رابطہ برقرار رکھے ہوئے ہے۔ یہ افپاک کے نام پر امریکا کی اپنائی گئی حکمت عملی سے قطعی مختلف سوچ اور راستہ ہے جس میں طاقت کے استعمال کا کوئی آپشن ہی نہیں۔
افغانستان کی طرح کشمیر بھی علاقے کا ایک ایسا سلگتا ہو امسئلہ ہے جس کی حدت چین باآسانی محسوس کر سکتا ہے۔ چین کی سرحدیں اس متنازع ریاست کے ساتھ ملتی ہیں اور خود ریاست کا ایک حصہ تاتصفیہ چین کے کنٹرول میں ہے۔ چین ہمیشہ سے اس تنازعے میں ایک فریق کے طور پر موجود رہا ہے یہ الگ بات کہ چین کی پالیسی حد درجہ احتیاط کی رہی ہے اور بیتے ہوئے ماہ وسال چین علاقائی تنازعات سے بظاہر لاتعلق رہ کر اپنی توجہ معیشت پر مرکوز کیے رہا۔ چین کی احتیاط پسندی کا ایک واقعہ آزادکشمیر کے سابق وزیر اعظم سردار عبدالقیوم خان نے ایک انٹرویو کے دوران آف دی ریکارڈ گفتگو میں سنایا تھا۔ اب جب کہ حالات بدل چکے ہیں اس لیے یہ واقعہ بیان کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ 1992میں کشمیر میں مسلح جدوجہد تیزی سے جاری تھی سردار عبدالقیوم خان نے چینی سفیر کو اس غرض سے آزادکشمیر کا دورہ کر ایا کہ وہ مہاجرین کے کیمپوں کا جائزہ لیں تاکہ چین کی حکومت کھل کر کشمیریوں کی حمایت کرے۔ سردار عبدالقیوم خان کا کہنا تھا کہ ان کے دفتر میں ملاقات سے پہلے مکمل تلاشی لی گئی تاکہ ریکارڈ نگ کا کوئی نظام موجود نہ ہو۔ جس کے بعد چینی سفیر اندر داخل ہوئے تو وہ گھبرائے گھبرائے سے تھے اور اصل موضوع پر بات کرنے سے گریزاں تھے۔ ملاقات میں سردار عبدالقیوم خان کے صاحبزادے سردار عتیق احمد کے سوا کوئی موجود نہیں تھا۔ چینی سفیر کو یہ موجودگی بھی کھٹک رہی تھی تو سردار عبدالقیوم خان کے مطابق انہوں نے چینی سفیر کو مخاطب کرکے کہا آپ بات کرسکتے ہیں یہ میرا بیٹا ہے۔ اس کے بعد ہی چینی سفیر نے کشمیر کی صورت حال پر بہ مشکل ہی ایک آدھ جملہ کہا اور ہمیں اندازہ نہیں ہو ا کہ وہ کیا کہنا اور کیا کرنا چاہتے ہیں۔ آج 2017 ہے اور حالات اور زمانہ اس قدر بدل گئے ہیں کہ چین پاکستان سے دوقدم آگے بڑھ کر کشمیر پر بات کرتا ہے اور زوردار انداز میں کردار ادا کرنے کی خواہش کا اظہا رکررہا ہے جس کا ایک ثبوت چینی وزرات خارجہ کے ترجمان گنگ شونگ کا بیان ہے جس میں بہت کھلے لفظوں میں پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازع کشمیر کے حل کے لیے ثالثی کی پیشکش کرکے دنیا کو چونکا دیا ہے۔ چینی ترجمان کا کہنا تھا کہ کنٹرول لائن پر کشیدگی بڑھنے کے بعد دنیا کی توجہ جنوبی ایشیا کے دو اہم ملکوں کی جانب ہو رہی ہے۔ یہ صورت حال صرف دو ملکوں پر ہی اثر انداز نہیں ہو رہی بلکہ پورے خطے کے امن واستحکام کے لیے خطرناک ہے۔ چین اس صورت حال میں تعمیری کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔
چین کی اس پیشکش کے جواب میں بھارتی وزرات خارجہ کے ترجمان گوپال باگلے کا کہنا تھا کہ مسئلے کی جڑ سرحد پار دراندازی ہے جس کا ذمے دار ایک مخصوص ملک ہے۔ جس سے امن اور استحکام کو خطرہ ہے۔ بھارت دوطرفہ فریم ورک کے تحت مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے۔ اس طرح بھارت نے چین کی پیشکش مسترد تو کردی مگر کشمیر پر بات چیت کرنے کا عندیہ دے کر دبے لفظوں میں کشمیر کے متنازع ہونے کا اعتراف بھی کیا۔ چین اور بھارت کے درمیان کشمیر کے نام پر لفظوں اور جملوں کا اس انداز سے تبادلہ ہونے سے کچھ ہی پہلے چین کے اخبار ’’گلوبل ٹائمز‘‘ نے یہ معنی خیز جملہ لکھا تھا کہ بھوٹان کی درخواست پر بھارت کے سکم میں فوج داخل کرنے سے یہ مثال قائم ہو گئی کہ پاکستان کی درخواست پر کسی تیسرے ملک کی فوج کشمیر جیسے متنازع علاقے میں داخل ہو سکتی ہے۔ چینی اخبار کے اس جملے پر بھارتی میڈیا اور سیاست دانوں کو سانپ سونگھ گیا تھا۔ چین کی طرف یہ انداز فکر اور طرز اظہار بھارتیوں کے قطعی نیا ہے۔ بھارت کے ایک تجزیہ نگار سوشانت سرین نے تسلیم کیا ہے کہ چین کی طرف سے پہلی بار یہ لب ولہجہ اختیار کیا گیا ہے جو حالات کی سنگینی کو ظاہر کر رہی ہے اور چین پہلی بار صورت حال کو ٹھنڈا کرنے کے بجائے کشیدگی بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔
ایک طرف پاکستان اور بھارت کے درمیان کنٹرول لائن پر کشیدگی پورے عروج پر ہے تو دوسری طرف چین اور بھارت کی افواج کے درمیان سکم کی سرحد پر پیدا ہونے والا تنازع بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ چین بھارتی فوجی کی واپسی کے بغیر بھارت سے کسی قسم کی بات چیت کرنے کو تیار نہیں۔ چین ایک متنازع علاقے میں بھارت کی فوج کے داخلے کو اپنی انا کے لیے چیلنج اور بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی قرار دے رہا ہے۔ چین کا میڈیا 1962کی ہند چین جنگ کی تصویریں اور واقعات کو دوبارہ لوح حافظہ پر تازہ کرکے بھارت کو بین السطور کچھ پیغامات دینے میں مصروف ہے۔ بھارتی ٹی وی چینلوں پر بحث مباحثے میں وادی کشمیر سے تعلق رکھنے والے شرکاء سے پوچھتے ہیں کہ اگر چین اور بھارت کا تصادم ہوگیا تو وہ کس کا ساتھ دیں گے؟۔ انہیں اس کا من پسند جواب سننے میں دلچسپی ہوتی ہے مگر ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہوتی۔ بھارت میں چھوٹی جنگوں کے لیے تیار رہنے اور وسائل کی فراہمی کے لیے منظوری کے پرت در پرت نظام سے ہٹ کر اسے سریع الحرکت اور براہ راست بنانے کے لیے فوج کے وائس چیف کو ضروری اسلحہ کی خریداری اور فوری فیصلہ سازی کا اختیار دے دیا گیا ہے۔ ان میں لڑاکا جنگی طیارے اور ٹینک جیسا اسلحہ بھی شامل ہے۔ اوڑی حملے کے بعد یہ اختیار ایک کمیٹی سے لے کر تینوں افواج کے سربراہوں یعنی تین افراد کو منتقل کیا گیا اور اب اسے مزید تیز رفتار بنانے کے لیے ایک ہی شخص وائس چیف کو سونپ دیا گیا۔ اس جیو پولیٹیکل صورت حال میں کشمیر کا تنازع بہت اہم ہوتا جا رہا ہے۔ علاقائی امن واستحکام کے نام پر چین کی کشمیر میں بڑھتی ہوئی دلچسپی بھارت کے رویے اور مظالم کا مکافات عمل ہے۔ امریکا نے یونی پولر طاقت بن کر کشمیر کے تنازعے کو حل کرنے کا نادر موقع گنوا دیا۔ وہ بھارت کی منڈیوں کے لالچ میں اس قدر مسحور ہو گیا کہ کشمیر پر اپنے روایتی اور دیرینہ موقف کو بھی ترک کر بیٹھا۔ اب چین ایک اُبھرتی ہوئی عالمی معاشی طاقت ہونے کی حیثیت سے اپنی سرحدوں پر تنازع کشمیر کے رستے ہوئے زخم کو مندمل کرنے کا خواہش مند ہے تو دنیا کو اس کوشش کا ساتھ دینا چاہیے کیوںکہ خطے میں امن چین کی اپنی ضرورت ہے محض ایک تصوراتی اور افسانوی بات نہیں۔