بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان کومعاشی ترقی کی راہ پر ڈالنے میں میاں نواز شریف کا بڑا کردار ہے ۔ اور شاید موجودہ صورتحال میں میاں صاحب اس حوالے سے ووٹوں کی دوڑ بھی جیت جائیں ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ میاں صاحب کے اقتصادی ترقی کے کارناموں کے مقابلے میں کرپشن ، دروغ گوئی اور دو عملی کے جرائم زیادہ بھیانک ہیں ۔ ان کی دولت میں اضافے کی رفتار بے تحاشا ہے اس کا سبب بھی واضح ہے کہ ان کے کاروبار کو اقتدار کا پہیہ لگا ہوا تھا ۔ لیکن ان ساری باتوں سے قطع نظر پاکستان کے اداروں ، عوام اور سیاسی جماعتوں کو یہ سوچنا ہو گا کہ میٹرو ٹرین ، بس سروس یا جنگلا ٹرین ،سرکلر ریلوے ، موٹر وے ، بجلی کے منصوبے اور سب سے بڑھ کر سی پیک … میاں نواز شریف کے منصوبے نہیں ہیں ۔ یہ سب پاکستان کے منصوبے ہیں ۔ جس دن ہمارے رہنمائوں اور اداروں نے یہ سیکھ لیا اس دن ہر معاملے میں پاکستان کی مستقل پالیسی از خود بن جائے گی ۔ اگر آج میاں نواز شریف کی کشمیر کمیٹی کے چیئر مین مولانا فضل الرحمن ہیں تو کل آنے والا حکمران لازماً چیئر مین تبدیل نہ کرے بلکہ ان خطوط کو استوار کیا جائے جن پر کسی بھی چیئر مین کو کام کرنا ہے ۔ پاکستان کی ایٹمی پالیسی ، بھٹو ، ضیاء الحق ، بے نظیر اور پھر میاں نواز شریف کے ادوار میں ایک کیسے رہی … اس پالیسی کے تسلسل نے ہی پاکستان کو ایٹمی قوت بنایا ۔ اگر کشمیر کے حوالے سے بھی معاملات اسی طرح رہتے تو حالات بہتر ہوتے… اسی طرح اگر سی پیک، بجلی کے منصوبوں یا میٹرو ٹرین سروس وغیرہ کے بارے میں آج کچھ شکایات ہیں تو ضروری نہیں کہ میاں نواز شریف کے جاتے ہی ان منصوبوں کو بند کر دیا جائے بلکہ ان میں جو خرابیاں ہیں انہیں دور کیاجانا چاہیے جو بد عنوانیاں ہیں ان کو ختم کیا جانا چاہیے ۔
جلد باز سیاستدانوں اور نو آموز بچونگڑے اینکرز کو جھنجھنا ہاتھ آ گیا ہے خوب کھیل رہے ہیں گویا نواز شریف عدالت سے باہر آئیں گے تو انہیں ٹھڈے مارتے ہوئے جیل بھیج دیا جائے گا اور اب ماہرین کی ٹیمیں بن گئی ہیں کہ متبادل کون ہوگا ۔ چودھری نثار کی کیا خوبیاں ہیں اور کیا خامیاں ہیں ۔ شہباز شریف وزیر اعظم بن سکتے ہیں یا نہیں ۔ وغیرہ وغیرہ … یہ سب کیا ہے … عدالت عظمیٰ کواپنا کام کرنے دیا جائے۔ پارٹیاں ، وزرائے اعظم اور وزراء آتے جاتے رہتے ہیں لیکن میڈیا سے ایسا تاثر دیا جا رہاہے کہ اگلے ہفتے اسلام آباد میں عمران خان وزیر اعظم بن رہے ہیں ۔ حالانکہ اگر ایسی صورتحال پیدا ہوئی تو مسلم لیگ ن میں سے کوئی وزیر اعظم بنے گا یا بالغرض محال اپوزیشن لیڈر کے سر پر اقتدار کا ہماآن بیٹھے گا… لیکن یہ شور کیا ہے… یہ نہایت نازک معاملات ہیں ۔ ہم برسہا برس سے سنتے آئے ہیں کہ پاکستان نازک موڑ سے گزر رہا ہے لیکن آج یہ بات حقیقت کا روپ دھار گئی ہے کہ پاکستان نازک موڑ پر ہے ۔ کسی ملک کے وزیر اعظم کے ساتھ اتنی طویل عدالتی اور تحقیقاتی جنگ اس سے بڑھ کر میڈیا ئی جنگ کہیں نہیں چلتی … جتنا مذاق پاکستان کا بھارت میںاڑایا جا رہا ہے اتنا تو کسی کامیڈی شو میں بھی نہیں اڑایا جاتا ۔ افسوس کا مقام ہے کہ گائے کا پیشاب پینے والے بھارتی وزیر اعظم ، انگوٹھا چھاپ وزیر اعلیٰ لالو پرساد ایک جعلی شخصیت نریندر مودی اور انگریز کی وفا داری کا سرٹیفکیٹ تھامے میں جمع کرانے والے آر ایس ایس کے ایڈ وانی جیسے سیاستدانوں کی تاریخ رکھنے والے ملک کا میڈیا پاکستان کا مذاق اُڑا رہا ہے اس کا بڑا سبب ہمارا اپنا سماجی میڈیا بھی ہے ۔ پتا نہیں ہمارا قومی مزاج سنجیدہ کب ہو گا ۔