عالم اسلام کا اتحاد وقت کی اہم ضرورت

3138

بشیر احمد کانجو
ایک عرصے سے مسلم ممالک ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں نظر آتے ہیں۔ بلاشبہ اغیار نے سازشوں کا جال بچھا رکھا ہے، لیکن کیا ہم اتنے ہی فاتر العقل ہیں کہ اُن کی شرارتوں کا ادراک نہیں کر پاتے۔ دہشت گردی کا سرغنہ ملک امریکا اُمت مسلمہ کے اتحاد و یگانگت کے خاتمے کے لیے ہر جگہ اپنا خاص کردار ادا کرتے نظر آتا ہے۔ ایران عراق جنگ ہو یا عراق کا کویت پر حملہ، روس کا افغانستان پر حملہ ہو یا کہ لیبیا کا قضیہ ہو، پوری دنیا کے معاملات میں ٹانگ اَڑانا وہ اپنا حق سمجھتا ہے۔ افغانستان سے روس کی پسپائی مجاہدین کے عزم و استقلال کی رہین منت تھی لیکن وہاں پر بھی امریکا نے مداخلت کی اور اس جنگ میں کود پڑا۔ اس جنگ کو اس نے قریب سے دیکھا اور پھر ان مجاہدین کو اپنے لیے باعث تشویش تصور کیا۔ اس بہانے نائن الیون کا سازشی واقعہ برپا کرادیا اور پھر اس کا ذمے دار القاعدہ کو قرار دے دیا۔ اسامہ بن لادن نے اس واقعے سے اپنی برأت کا اعلان کیا لیکن میں نہ مانوں کے مصداق اُس نے افغانستان پر حملہ کردیا۔
حالات تو اس بات کے متقاضی تھے کہ مسلم ممالک اور پورا عالم اسلام سنجیدگی سے غور کرتا کہ اس وقت اُمت مسلمہ کو یکجا کرنے میں کن اقدامات کی ضرورت ہے، لیکن حالات اس کے برعکس نظر آتے ہیں۔ کئی مسلم ممالک آپس میں ہی نبرد آزما ہیں، اخبارات تند و تیز بیانات سے اَٹے ہوئے ہیں، سرحدوں پر بلا جواز اشتعال کی کیفیت ہے، گولہ باری ہورہی ہے، ہر طرف مسلمانوں کا خون اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے ہاتھوں بہتا نظر آتا ہے، امن وامان کی صورت حال کو ہم خود ہی تباہ و برباد کررہے ہیں، ہر مسلمان کی آنکھ خون کے آنسو بہا رہی ہے اور افسوس کہ یہ سب کچھ اغیار کے اشارے پر ہورہا ہے۔ جنوبی ایشیا میں امن وامان کی صورت حال کو تباہ و برباد کرنے کے لیے امریکا نے بھارت کو ہم پر مسلط کردیا ہے۔ اس نے افغانستان کو اپنا آلہ کار بنا کر سرحدوں پر کشیدگی کی صورت پیدا کر رکھی ہے، بھارت افغانستان کے راستے ہی پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہے اور اُس کا بین ثبوت کل بھوشن کے اقراری بیانات ہیں۔ بھارت نے کشمیریوں پر جو ظلم روا رکھے ہوئے ہیں وہ کسی سے مخفی نہیں، بلاشبہ ہماری غلط خارجہ پالیسی کا بھی اس میں ایک کردار ہوسکتا ہے۔
جنوبی ایشیا کے علاوہ مشرق وسطیٰ میں عرب ممالک کے حالات بھی اُمت مسلمہ کے لیے باعث تشویش بنے ہوئے ہیں، ایران کے ہر قدم کو سعودی عرب اپنے لیے خطرے کی گھنٹی تصور کرتا ہے۔ یمن، سعودی عرب قضیہ ہو یا شام میں ایران کی مداخلت ہو، یہ تمام واقعات سعودی عرب کے لیے باعث تشویش ہیں، سعودی عرب ایران کے ان خطرات کو محسوس کرتے ہوئے امریکا سے بڑے پیمانے پر اسلحے کی خریداری کرتا نظر آتا ہے۔ امریکا ایک طرف اپنا اسلحہ فروخت کرکے معاشی استحکام حاصل کررہا ہے دوسری طرف وہ مسلم ممالک میں انتشار و افتراق پیدا کرکے مسلمان اُمت کا شیرازہ منتشر کررہا ہے۔ بدقسمتی سے اس وقت کوئی بھی ایسا رہنما نظر نہیں آتا جو عالم اسلام میں اتحاد و اتفاق پیدا کراسکے۔ ہمارے مسلم ممالک اپنے معاملات میں امریکا ہی کو اپنا معاون و مددگار بنائے ہوئے ہیں، ہماری تمام صلاحیتیں ہمارے دشمن کو مضبوط بنارہی ہیں، مسلم ممالک کے حکمرانوں کو اس وقت صرف اپنی حکمرانی کا تحفظ عزیز ہے، اس سے آگے ان کی سوچ ہی نہیں رہی۔ یہ سوچنے کا مقام ہے کہ ایران عراق جنگ میں کس کو فائدہ پہنچا تھا۔ دو مسلم ممالک نے اپنی طاقت کو تاراج و پامال کیا۔ سقوط ڈھاکا میں اغیار کا کردار کوئی دور کی بات نہیں، کیا اس وقت مسلمان اُمت کی بیداری کا وقت نہیں ہے؟ اُمت مسلمہ کے ممالک اپنا وزن اپنی فوز و فلاح میں صرف کریں۔ ماضی کے امریکی کردار سے کوئی بھی لاعلم نہیں، پھر بھی اگر ہم اپنے دشمن کی سازشوں میں شریک ہوگئے تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ ایران کا مسلم ممالک کے ساتھ رویہ بلاشبہ افسوس ناک ہے لیکن یہ امت مسلمہ کا اندرونی معاملہ ہے، اس میں اگر ہم ایک مرتبہ پھر امریکا کی ڈکٹیشن قبول کریں گے تو پھر ہم اُس کے ’’ڈومور‘‘ کے اسیر بن کر رہ جائیں گے۔ یہ بات ناقابل فہم ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو تو دنیا کے لیے خطرہ قرار دیا لیکن کشمیریوں کے ساتھ بھارت کے مظالم پر اُس کی زبان گُنگ رہی۔
امریکا کے نومنتخب صدر کے دورہ سعودی عرب کو ابھی کوئی زیادہ وقت نہیں گزرا کہ اُس کے فیصلوں کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ ایک مسلم ملک قطر کو اسلامی فوجی اتحاد سے خارج کردیا گیا ہے اس پر دہشت گردوں سے تعاون کا الزام لگایا گیا ہے، کیا ہو گیا ہے مسلم ممالک کے فہم و فراست کو کہ قطر پہلے اسلامی فوجی اتحاد کی رکنیت کا اہل تھا اور پھر اب یکایک قطر دہشت گردی میں ملوث ہوگیا۔ اس وقت امت مسلمہ کو کس طرح ایک مرتبہ پھر اتحاد و اتفاق پر یکجا کیا جاسکتا ہے۔ اقوام متحدہ نے عالم اسلام کے حقوق کو پامال کیا ہے، وہ تو صرف امریکا اور مغربی دنیا کا تحفظ چاہتی ہے، کیا اُمت مسلمہ اس قسم کے ادارے قائم نہیں کرسکتی جن سے مسلمانوں کے حقوق کو تحفظ حاصل ہوسکے۔ امریکا کی مسلم عداوت کوئی راز کی بات نہیں اس سب کے باوجود بھی اگر مسلم ممالک نے اپنے اختلافات کو بالا طاق نہ رکھا اور اپنے مسائل باہمی روابط سے حل نہ کیے تو پھر یہ امت مسلمہ کی بدنصیبی ہوگی۔