تقدیر امم

304

baba-alifگزشتہ کالم میں ہم نے تحریر کیا تھا:
’’عام طور پر کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کی اولین جنگیں دفاعی تھیں۔ یہ درست نہیں ہے۔ مدینہ میں اسلام کے مخصوص مفہوم اور تصورات کو زندگی کا ضابطہ حیات اور مرکزبنا دینے کے ساتھ ساتھ آپ ؐ ان تیاریوں میں بھی مصروف تھے جن کے ذریعے آپ کفر کی مادی طاقت کو مادی طاقت کے ذریعے مٹاسکیں۔ یوں آپ ؐ نے پہل کرتے ہوئے جہاد کی قوت سے ان رکاوٹوں کو ہٹانے کا فیصلہ کیا۔ اسلام کی دعوت کو مدینہ سے باہر پھیلانے کے لیے آپ ؐ نے ایک فوج تیار کی اور ازخود ایسے اقدامات کیے جن سے یہودیوں اور منافقین پر رعب طاری ہوا اور بڑی جنگوں کا ماحول پیدا ہوا۔‘‘ بعض احباب ان سطور سے کنفیوز ہوئے ہیں سو مزید عرض ہے:
رسالت مآب ؐ جب مدینہ کی ریاست میں اسلامی معاشرے کی تشکیل سے مطمئن ہوگئے، یہودیوں اور منافقین سے کوئی خطرہ نہیں رہا تب آپ نے جہاد کی طرف توجہ مرکوز کی۔ کیوںکہ اسلامی ریاست کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اسلام کو اپنی حدود اور معاشرے میں نافذکرنے کے بعد اس نور کو اپنی حدود سے باہر پھیلائے۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ ان مادی رکاوٹوں کو دور کیا جائے جو اس راہ میں حائل ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے آپ ؐنے ایک طرف فوج کی تیاری پر طرف توجہ دی‘ دوسرے آپ ؐ نے قصداً کچھ ایسے اقدامات کیے جن سے ایک طرف قریش کو چیلنج کیا گیا، دوسری طرف یہودیوں اور منافقین پر رعب طاری ہوگیا۔ چنانچہ آپ ؐ نے چار ماہ کے دوران تین مہمات مدینے کے باہر روانہ کیں۔
ایک مہم میں آپ ؐ نے تیس سواروں پر مشتمل ایک دستہ اپنے چچا سیدنا حمزہؓ کی قیادت میں بھیجا۔ سمندر کے کنارے العیص کے مقام پر ابوجہل کی سربراہی میں جانے والے تین سو سواروں سے جس کا سامنا ہوا۔ مجدی بن عمرو الجھنی کے بیچ میں پڑنے سے یہ لڑائی نہ ہوئی اور سیدنا حمزہ ؓ بغیر جنگ مدینے واپس آگئے۔ دوسرا دستہ سیدنا ابو عبیدہ بن الحارثؓ کی سر براہی میں بھیجا۔ یہ دستہ ساٹھ سواروں پر مشتمل تھا۔ وادی رابغ میں عکرمہ بن ابی جہل سے ان کا معرکہ ہوا۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص ؓ نے تیر چلایا۔ تاہم فریقین سلامتی سے واپس لوٹ گئے۔ تیسرا دستہ آپ ؐ نے سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ کی قیادت میں مکہ کی طرف بھیجا۔ اس دستے میں بیس سوار تھے۔ یہ دستہ بھی بغیر معرکہ آرائی مدینے لوٹ آیا۔ ان مہمات سے آپ ؐ نے دو واضح مقاصد حاصل کیے۔ ایک مدینے میں جہاد کی فضا بنی دوسرے قریش پر جنگ کی ہیبت طاری ہوئی اور وہ آپ ؐ سے خطرہ محسوس کرنے لگے۔
عالی مرتبت ؐ نے صرف ان تین مہمات پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ ہجرت کے ایک سال بعدآپ ؐ خود ایک مہم پر روانہ ہوئے۔ آپ ؐ قریش اور بنی ضمرہ کی تلاش میں الابوا اور پھر ودّان تک پہنچے۔ قریش تو نہیں ملے البتہ بنی ضمرہ نے آپ ؐسے صلح کرلی۔ اس کے دو مہینے بعد آپ ؐدوسو انصار اور مہاجرین کا ایک دستہ لے کر نکلے۔ بواط کے مقام پر ایک قافلے سے آپ کا سامنا ہوا جس کی قیادت امیہ بن خلف کے ہاتھ میں تھی۔ یہ قافلہ مسلمانوں کے لشکر سے بچ کر ایک ایسے راستے سے نکل گیا جس پر عام طور پر کوئی نہیں جاتا تھا۔ اس کے تین ماہ بعد ہجرت کے دوسرے سال جمادی الاول کے آخر میں 200 سے زائد افرادکے ہمراہ آپ ؐ العشیرہ کے مقام پر پہنچے اور جمادی الآخرکے ابتدائی دنوں تک قریش کے ایک قافلے کا انتظار کیا۔ یہ قافلہ ابو سفیان کی قیادت میں آرہا تھا۔ قریش کے قافلے سے ٹکرائو نہیں ہوا لیکن بنی مدلج اور ان کے حلیف بنی ضمرہ کے قبائل سے آپ ؐ کے معاہدے ہوگئے۔ اس مہم سے واپسی کو دس دن ہی گزرے تھے قریش کے ایک حلیف کرز بن جابر الفہری نے مدینے کے اونٹوں اور مویشیوں کے غلے پر حملہ کیا۔ آپ ؐخود اس کی تلاش میں نکلے لیکن وہ ہاتھ نہ آیا۔ یہ بدر اول تھی۔ ان مہمات میں اگرچہ باقاعدہ لڑائی نہیں ہوئی لیکن ان کے زبردست نتائج نکلے۔ بڑی جنگوں کی راہ ہموار ہوئی، یہود اور منافقین ڈر گئے، مسلمان جہاد کے جذبے سے سرشار رہنے لگے اور قریش کی ہمت پست ہوگئی، مدینہ اور بحر احمر کے درمیان جو قبائل آباد تھے ان سے معاہدات ہوگئے۔
ان مہمات میں سب سے آخری مہم سیدنا عبداللہ بن حجش کی سربراہی میں تھی جو غزوہ بدر کا پیش خیمہ بنی۔ اس مہم کا مقصد مکہ اور طائف کے درمیان نخلہ میں قریش پر نگاہ رکھنا تھا۔ لیکن ہوا یوں کہ وہاں سے ایک تجارتی قافلہ گزرا۔ مسلمانوں کی طرف سے قافلے کے سردار کا نشانہ لیا گیا۔ وہ مارا گیا۔ مسلمانوں نے قریش کے دو آدمیوں کو قیدی بنایا، سامان قبضے میں لیا اور مدینہ لوٹ آئے۔ یہ حرمت کے مہینے رجب کے آخری دن تھے۔ آپ ؐ نے دیکھا تو فرمایا: ’’میں نے تمہیں حرام مہینے میں قتل کا حکم نہیں دیا تھا۔‘‘ آپ ؐ نے قیدیوں اور مال کو جوں کا توں رکھا۔ قریش نے اس واقعے کو بنیاد بناکر سارے عرب میں مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈے کا طوفان اٹھا دیا اور مسلمانوں کا جینا محال کردیا۔ حتی کہ اللہ کا حکم سورہ بقرہ کی آیت 217 نازل ہوئی جس میں حرام مہینوں میں قتل کی ممانعت منسوخ کردی گئی۔ یہ معرکہ آرائی مسلمانوں کے لیے شرم کا باعث نہ رہی۔ ان فوجی مہمات اور قوت کے مظاہر سے اسلام کا کلمہ بلند ہوا، مدینے کے آس پاس دشمنوں نے خاموشی اختیار کرلی یا خود کو اسلامی حکومت کے سپرد کردیا۔
2ہجری رمضان کی آٹھ تاریخ آپ ؐ تین سو سے زائد صحابہ کرام ؓ کے ہمراہ مدینے سے باہر ابوسفیان کے قافلے کے تعاقب میں نکلے اور ذَفِران کی وادی میں خیمہ زن ہوگئے۔ قریش مکہ کو خبر ملی تو وہ ابوسفیان کے قافلے کی حفاظت میں مکہ سے نکل پڑے۔ یوں معاملہ ابوسفیان کے قافلے سے ٹکرائو کے بجائے قریش سے معرکہ آرائی میں تبدیل ہوگیا۔ اس موقع پر مہاجرین اور انصار کا بے پناہ خلوص اور جذبہ قربانی! اللہ، اللہ۔ بدر کے مقام پر یہ معرکہ مسلمانوں کی فتح پر اختتام پزیر ہوا اور مسلمان ایک عظیم کامیابی کے ساتھ مدینے واپس لوٹے۔
یہ تمام واقعات سیرت کی کتب میں موجود ہیں جن سے رسول اکرمؐ کا تصور جنگ سامنے آتا ہے۔ تحریک احیائے علوم کے بعد مغربی اقوام نے جارحانہ حملوں کا یہ تصور مسلمانوں سے مستعار لیا۔ اس جذبے کو جب جب کسی قوم نے اپنایا کامیابی سے ہم کنار ہوئی۔ اسرائیل کی ایک سابق وزیراعظم گولڈا مئیر نے بے حساب اسلحہ خریدنے کا یہ جواز پیش کیا کہ یہ خیال اس نے مسلمانوں کے نبی (محمد کریمؐ) سے لیا ہے کہ جب وہ دنیا سے تشریف لے جارہے تھے تو گھر میں کھانے کو کچھ موجود نہیں تھا لیکن دیوار پر نو تلواریں لٹکی ہوئی تھیں۔ پاکستان کے قیام کے بعد سے بھارت کے مقابل ہمارا رویہ مدافعانہ رہا جس سے ہم نے نقصان کے سوا کچھ حاصل نہیں کیا۔ اس مدافعانہ جنگ کے لیے بھی ہم نے کسی سپر پاور کا سہارا حاصل کرنے میں اپنی توانائیاں کھپا دیں اور تیسرے یہ کہ اسلام کے نفاذ کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ سید الکونین ؐ نے جزیرۃ العرب میں پھیلے دشمن قبائل سے نمٹنے کے لیے نہ کبھی قیصر کی طرف دیکھا اور نہ کسری کی طرف بلکہ اسلام کو پوری قوت سے نافذ کیا جس سے آپ کو وہ بے پناہ قوت حاصل ہوئی کہ نہ صرف جزیرۃ العرب بلکہ قیصر وکسریٰ بھی مسلمانوں کے زیر نگیں آگئے۔ جب بھی کسی قوم نے دنیا میں انقلاب برپا کیا اوّل شمشیر وسناں کو اپنے سینوں پر سجایا۔
میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر اُمم کیا ہے
شمشیر وسناں اول طائوس ورباب آخر