دوہری شہریت والوں کے دُکھ

233

zc_ZairOZabarجب ہم طالب علم تھے تو ’شہریت‘ اکہری ہوتی تھی۔ اب ہم طالبِ زر ہوگئے ہیں توہماری شہریت کی کمر بھی مال وزرکے بوجھ سے جُھک جُھک کر دوہری ہوگئی ہے۔ اِس دُکھیا سے چلا ہی نہیں جاتا۔ لٹھیا ٹیک ٹیک کر چلتی ہے۔’دوہری شہریت‘ دراصل اُس کیفیت کانام ہے، جس میں ہماری بستی کے ایک نیم خواندہ شاعر کی گائے مبتلا ہوگئی تھی۔شاعر موصوف شعر کاوزن اپنے تلفظ سے پورا کر لیا کرتے تھے۔ فرماتے ہیں:
’’چُراہے بیچ کھڑی ہے گائے!
سوچ رہی ہے:
اِدھر کو جائے؟… اُدھر کو جائے؟
یعنی یہ کہ کدھر کو جائے؟‘‘
ایک اپنے چچاغالبؔ تھے جو تارکین وطن کی سی تاویلیں کیا کرتے تھے کہ … ’ہم نے مانا کہ رہیں دِلّی میں پر کھائیں گے کیا؟‘ … دوسرے کوئی عجیب قسم کے دہلوی شاعر تھے، جنہوں نے یہ سوچنے کے بجائے کہ یہ بے مایہ شاعر کدھر کو جائے؟ کیاکھائے؟ ایک دو ٹوک فیصلہ کر لیا:
ہم اپنی دِلّی چھوڑ، دکن کو نہ جائیں گے
گر، یاں بہت نہ کھائیں گے، تھوڑا ہی کھائیں گے
ایسا فیصلہ کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ بالخصوص اُس کے بس کی، جس کو اپنی دِلّی چھوڑ بھاگنے کا موقع بھی مل رہا ہو۔ ہمارے یہاں سے بھی بہت لوگ بہت سمتوں میں نکل بھاگے۔ مقصد سب کا قریب قریب ایک ہی تھا۔ باہر جائیں گے تو بہت کھائیں گے۔ کیا عجب کہ باہر جاکر معدہ بھی ایکسپورٹ کوالٹی کا اور انٹر نیشنل سائز کا ہوجاتا ہو۔ آدمی اپنے وطن میں لگنے والی بھوک سے زیادہ کھا جاتا ہو۔ سو ہوا یوں کہ:
لوگ نکلے جو غمِ نانِ شبی میں گھر سے
ایسے بکھرے کہ قبیلوں کے قبیلے نہ رہے
مگر ہم نے تو سنا ہے کہ بیرون ملک جاکر کسبِ زر کی دھن میں پڑجانے والوں کے سب کس بَل نکل جاتے ہیں۔ ملنے کا ہوش رہتا ہے نہ (گھر کو فون) ملانے کا۔ ہوش رہتا ہے تو بس کمانے کا۔ اس کمائی کو تصرف میں لانے کا موقع بھی نہیں ملتا۔ کماتے کماتے آخر ایک روز صندوق میں بند ہوکر واپس آجاتے ہیں اور اپنی ’دوہری شہریت‘ سمیت قبر میں سما جاتے ہیں۔ بعض لوگ حسرت بھری آواز میں یہ مصرع پڑھتے ہوئے وہیں گڑ جاتے ہیں کہ … ’دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں!‘ … پس’دوہری شہریت‘ لے لے کر … اے صاحبو! ہم … ’کیا کہیں احباب کیا کارِ نمایاں کرگئے!‘
ہمارے ایک شاعر نے کہا تھا … اور ذرا ’دوہری شہریت‘ والوں سے پوچھیے کہ کیا غلط کہا تھا؟ … کہ:
جو مجا چھجو دے چُبارے
اوہ نہ بلخ نہ بخارے
بلخ اور بخارا تو پھر بھی ثقافتی شہر تھے۔ اب تو یورپ ہے، امریکا ہے، کنیڈا ہے اور آسٹریلیا۔ جہاں چوپال ہیں نہ چوبارے۔ محفلیں ہیں نہ مجلسیں۔ ملاقاتیں ہیں نہ باتیں۔ اگر ہے تو بس ایک مشینی زندگی ہے کہ اقبالؔ ؒ جس کا بغور مشاہدہ کرکے ہمیں پہلے ہی بتا چکے تھے:
ہے دِل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروّت کو کچل دیتے ہیں آلات
پس اُن بے مروت اور مُردہ دیاروں میں ’زندگی‘ پائی جاتی ہے نہ’ زندہ دلی‘۔ کوئی چلتے پھرتے (بغیر کام پڑے) کسی کو سلام نہیںکرتا۔ بس میں بیٹھیے تو ہم نشیں آپ سے آپ کا نام نہیں پوچھتا۔ یہ نہیں پوچھتا کہ کیا مشغلہ ہے؟ گزر بسر کیسے ہوتی ہے؟ کتنے بچے ہیں؟ لڑکے کتنے ہیں اور لڑکیاں کتنی؟ کون، کون سی کلاس میں پڑھ رہا ہے؟ آپ کہاں جارہے ہیں اور کاہے کو جارہے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔ ایسی اپنائیت کسی اور ملک میں کہاں؟
پھر بھی یہ ملک غالباً دُنیا کا واحد ملک ہے کہ جس ملک کے لوگ اپنے ملک میں نہیں بلکہ کسی اورکے ملک میں رہنا چاہتے ہیں۔ ’دوہری شہریت‘ لینا چاہتے ہیں۔ لہٰذا:
کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے، باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
گئے لوگ جب واپس آتے ہیں تو واپس آکر بھی برسوں تک واپس نہیں آتے۔ اندرون وطن بھی بیرون وطن ہی کے گن گاتے رہتے ہیں۔ وہاں کی خوبیاں گِنواتے رہتے ہیں۔ مگر ان خوبیوں کو اپنے ملک کے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں نہ خود اپنے اندر۔ یہ ’دوہری شہریت‘ والے جو امریکی امیگریشن کے لیے قطار اندر قطار گھنٹوں صبر کا پیکر بنے چپ چاپ کھڑے رہتے ہیں۔ وطن واپس آتے ہوئے انہیں دیکھیے تو ارضِ وطن پر اُترتے ہی بین الاقوامی آمد کے ایوان میں امیگریشن کاؤنٹر تک پہنچنے کے لیے ایسی بھگدڑ مچاتے ہیں کہ محسوس ہوتا ہے گویا وہ بیرون ملک بس اسی بھگدڑ کے لیے ترس رہے تھے۔ پھر یہی لوگ ہمیں بتاتے ہیں کہ یورپ میں یوں ہوتا ہے، امریکا میں ووں ہوتا ہے۔ پر کوئی نہ جانے کیوں ہوتا ہے؟
آپ نے قوم کو ’بنانے والوں‘ کو اکثر یہ کہتے سنا ہوگا کہ:
’’ہم لیاری کو پیرس بنادیں گے‘‘۔
(بنا تو دیا ہے، مگر انقلابِ فرانس سے پہلے کا پیرس بنادیا ہے) کاش کسی نے یہ کہا ہوتا کہ:
’’ہم لیاری کو لیاری بنادیں گے۔ ایسا لیاری کہ پیرس والے بھی دیکھیں تو رشک کریں‘‘۔
رشک اس بات پر کریں کہ یہاں حیا ہے، محبت ہے، امن ہے، اخوت ہے، دیانت ہے، ایمان ہے، سلامتی ہے اور طہارت وپاکیزگی ہے کہ جس سے وہ محروم ہیں۔ آج کی دُنیا اُن نعمتوں کو ترس رہی ہے جنہیں ہم ٹھکرا رہے ہیں۔ کل کی دُنیا کے امام وہ ہوں گے جو بیکل اور بے قرار انسانیت کو یہ نعمتیں بانٹیں گے۔ نہ کہ وہ جو پوری انسانیت کو تشدد سے چیر پھاڑ کر اور بم سے بھون کر رکھ دینے کے درپے ہوگئے ہیں۔ کیا کبھی ظلم پر زوال نہیں آتا؟