موقف میں یکسانیت

239

zcl_muftiMuneebوزیرِ اعظم نواز شریف اور پی ٹی آئی کے چیئرمین جنابِ عمران خان ایک دوسرے کے ’’عَدُوٌّ مُّبِیْن‘‘ یعنی کھلے دشمن ہیں۔ اب دونوں کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھ کر قومی مسائل کا قابل ِ قبول حل نکالنے کے امکانات معدوم ہیں۔ ماضی میں صدر ایوب خان کے خلاف متحدہ حزبِ اختلاف ہو یا ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پی این اے کی تحریک، سیاسی قائدین مذاکرات کا دروازہ کھلا رکھتے تھے۔ لیکن اب ایک دوسرے کی اہانت اور نفرتیں سیاسی اختلاف سے نکل کر ذاتی عداوت کی سطح پر آپہنچی ہیں اور یہ افسوسناک صورت حال ہے۔ سیاسی اختلاف کے باوجود ماضی کے سیاسی رہنمائوں کا طرزِ تخاطُب تہذیب کے دائرے میں رہتا تھا، مگر اب ایسا نہیں ہے۔ ہم اَقدار وروایات کے عہدِ زوال میں جی رہے ہیں۔ نوابزادہ نصر اللہ خان کی طرح کوئی بردبار اور وضع دار شخصیت بھی ہمارے سیاسی اثاثے میں موجود نہیں ہے جو سب کو ایک میز پر جمع کرسکے اور نہ ہی علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی ایسی کوئی باوقار مذہبی شخصیت ہے جو باہم برسرِ پیکار مذہبی طبقات کو یکجا کرسکے۔ پس یہ ایک قومی المیہ ہے۔ آزاد میڈیا نے اختلافِ رائے اور ذاتی عداوت کو ہم معنیٰ بنادیا ہے۔
اس وقت وزیرِ اعظم نواز شریف اور عمران خان دونوں مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں، اپنے اپنے دعوے کے مطابق دونوں پارسا ہیں اور اُن کا حریف بدعنوان ہے۔ جے آئی ٹی کے سامنے پیشی کے بعد نواز شریف نے اپنے خلاف دائر مقدمے کی بابت اپنا موقف بیان کیا، اسی طرح اپنے خلاف دائر مقدمے کے بارے میں عمران خان کا موقف بھی سنا تو مجھے دونوں کے موقف میں یکسانیت نظر آئی۔ کرپشن کے بارے میں دونوں کی تعریف معنوی اعتبار سے قریب تر ہے۔ البتہ فریقِ مخالف پر اطلاق اور تعبیر وتشریح دونوں کی اپنی اپنی منشا کے مطابق ہے۔ عمران خان اپنے خلاف دائر مقدمے کی بابت کہتے ہیں: ’’میں کسی بااختیار حکومتی منصب پر کبھی فائز نہیں رہا، لہٰذا مجھ سے جواب طلبی کیوں کی جارہی ہے‘‘۔ ایسی ہی بات نواز شریف نے کہی: ’’جے آئی ٹی نے میرے سوالوں کا جواب نہیں دیا کہ میں نے کسی سرکاری ڈیل میں کوئی رشوت لی ہے، Kick Back لیا ہے، کمیشن لیا ہے یا عوام کا پیسا کھایا ہے تو ثبوت دیجیے۔ میرے ہاتھ تو کرپشن کی میل سے بالکل پاک ہیں‘‘۔ ظاہر ہے اس کے لیے ٹھوس ثبوت اور شواہد چاہییں۔ الزام پاناما لیکس سے شروع ہوا تھا لیکن کرپشن کا سراغ لگانے والے ماہرین نے سات سمندروں میں غوطہ زنی فرمائی ہے، اب پاناما لیکس صرف عنوان ہے، دس بھاری کارٹن پر مشتمل جو کتاب تصنیف کی گئی ہے، اُس میں پاناما لیکس کا ذکر برائے نام ہے۔ اسی کو مسلم لیگ ن بدنیتی سے تعبیر کر رہی ہے کہ پاناما لیکس بہانہ ہے، پسِ پردہ ایجنڈا کچھ اور ہے۔
اہلِ اقتدار پر بجا طور پر ایک الزام یہ بھی لگایا جاتا ہے کہ وہ اپنے کاروبار کو بڑھاوا دینے اور مفادات حاصل کرنے کے لیے حکومتی منصب اور اختیارات کی وجاہت کو استعمال کرتے ہیں، لہٰذا اُن کا کوئی کام کہیں رکتا نہیں ہے، ورنہ بقولِ ریاض ملک ’’فائلوں کو پہیے لگانے پڑتے ہیں‘‘۔ یہ رعایت کسی نہ کسی درجے میں ہمارے معاشرے میں غیر سرکاری مقبولِ عام یا رعب داب والی شخصیات بھی حاصل کرتی ہیں، ان میں مقتدر اداروں کی موجودہ یا ریٹائرڈ شخصیات، سیاست دان، میڈیا پرسنز، صحافی اور مسلّح گروہوں کے افراد بھی شامل ہیں۔ جنابِ عمران خان تو کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے کی بنا پر ایک عرصے سے نہایت نمایاں اور مقبولِ عام شخصیت رہے ہیں، ہم جیسے بے مایا بھی کہیں جاتے ہیں تو سرکاری اختیارات یا رعب ودبدبہ کی ہوا تک نہ لگنے اور مکمل بے اختیار ہونے کے باوجود کچھ نہ کچھ احترام مل جاتا ہے، کسی نہ کسی درجے میں ترجیح دے دی جاتی ہے، کبھی کوئی اٹکا ہوا کام نکل جاتا ہے۔ ائر پورٹ پر یا کسی جگہ لائن میں لگے ہوں تو لوگ احترام سے آگے آنے کی پیشکش کردیتے ہیں، اگر ہم ان سے کہیں کہ دوسروں کو اعتراض ہوگا، تو وہ کہتے ہیں: ہم اپنی جگہ آپ کو دے کر قطار کے پیچھے جاکھڑے ہوتے ہیں۔ سو یہ رعایت یا ترجیح کہیں کم اور کہیں زیادہ ہماری معاشرتی اقدار کا حصہ ہے۔ ہماری رائے میں اس حوالے سے عمران خان کا رعب داب نواز شریف سے زیادہ ہے، لیکن جب سیاسی جنگ میں ان کا نام کسی کے لبوں پر آجائے تو وہ جلال میں آجاتے ہیں کہ میرا نام کیوں لیا جارہا ہے۔
2000ء کے بعد سے آزاد الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا پوری قوت اور بلند آہنگ کے ساتھ میدان میں آیا ہے، اسی لیے کئی صنعت کاروں اور سرمایا داروں نے شعبۂ صحافت سے تعلق نہ ہونے کے باوجود ٹیلی ویژن چینل کھول لیے ہیں تاکہ اُن کی طرف کوئی میلی نظر سے دیکھنے کی جسارت ہی نہ کر سکے۔ سو کوئی مانے یا نہ مانے اب یہ بلیک میلنگ، حکمرانوں اور اعلیٰ بیوروکریسی کو دبائو میں رکھنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ کس کی مجال ہے جو اِن کی طرف آنکھ اٹھاکر دیکھے، وہ تو خود اُن سے جان کی امان چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکمران منی ٹریل کا ثبوت نہ دے سکیں تو مجرم، لیکن یہی کام کوئی ہیبت رکھنے والا سیاسی رہنما یا میڈیا پرسن کرے تو یہ اس کی شان اور استحقاق ہے۔ جو انگلی اٹھائے، وہ بے ضمیر بلکہ ضمیر فروش اور کسی کا زر خرید ایجنٹ قرار پائے۔ بہت سے مقدمات ادارۂ قومی احتساب، الیکشن کمیشن اور عدالت عظمیٰ میں دائر ہیں۔ کوئی لائن میں لگے پیشیوں کے لیے آرہے ہیں اور کوئی اشتہاری قرار دیے جانے اور روز سرِ شام میڈیا پر رونق افروز ہونے کے باوجود ایسی سلیمانی ٹوپی پہنے ہوتے ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نظر ہی نہیں آتے۔ یہی ہمارے ملک کا قانون ہے اور یہی ہمارا نظامِ عدل ہے۔
ہم آئے دن جس ترقی یافتہ دنیا کی مثالیں دیتے ہیں، وہاں قانون کی حکمرانی ہے، جواب دہی صرف اہلِ اقتدار سے نہیں ہوتی، ہر ایک سے ہوتی ہے اور ہوسکتی ہے۔ ریاستی اور حکومتی اختیارات کے ناجائز استعمال کی طرح ٹیکس چوری، قانون شکنی، دبائو میں لانے کے لیے حیلے اور حربے استعمال کرنا سب جرم ہیں، لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے۔ میڈیا پر اپنے اپنے قائد کی پارسائی ثابت کرنے کے لیے ہر سیاسی جماعت کے ترجمانوں کا لفاظی اور اداکاری کا ماہر ہونا ضروری ہے، ان کے فرمودات کا حقائق پر مبنی ہونا لازمی نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (1) ’’سو تم اپنی پارسائی بیان نہ کرو، اللہ متقین کو خوب جانتا ہے، (النجم: 32)‘‘۔ (2) ’’کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اپنی پارسائی بیان کرتے ہیں، بلکہ اللہ ہی جس کو چاہے پاکیزہ فرماتا ہے، (النساء: 49)‘‘۔
ہمارے ہاں جس کی گردن پھنس جائے، وہ تماشا گاہِ عالَم بن جاتا ہے اور جو شکنجے میں نہ آئے، وہ پارسا ہوتا ہے۔ ورنہ اگر ہر ایک کو اسی طرح کڑا حساب دینا پڑ جائے، تو فقیرِ بے نوا کے سوا شاید ہی کوئی بچ پائے۔ اسکول کے زمانے میں ایک کہانی پڑھی تھی: ’’ایک آدمی کسی بے غم شخص کی تلاش میں سرگرداں تھا، وہ جس کے پاس جاتا اسے کسی نہ کسی پریشانی میں مبتلا پاتا اور وہ اپنی داستانِ غم لے کر بیٹھ جاتا۔ آخر کار دریا کے کنارے اسے ایک مَست الَست شخص ملا، اُس شخص نے اُس سے پوچھا: ’’تجھے کوئی غم اور پریشانی ہے؟‘‘، اس نے کہا: ’’بالکل نہیں‘‘، اس نے سمجھا مجھے مراد مل گئی۔ لیکن پھر اُسے غور سے دیکھا تو پتا چلا کہ وہ شخص تو ضروری ستر کے علاوہ لباس کے غم سے بھی آزاد ہے۔ حضرت لعل شہباز قلندر نے کہا ہے:
بے کام وبے زبانم مَست اَلَست ہستم
بے نام وبے نشانم مست اَلَست ہستم
ترجمہ: ’’میں تالو اور زبان کے بغیر مست اَلَست ہوں، میں بے نام وبے نشان ہوں (مگر) مست اَلست ہوں‘‘۔ یعنی دنیاوی لذتوں اور نام ونمود سے مجھے کوئی غرض نہیں ہے۔
پاکستانیوں کی اربوں ڈالرکی جائداد ملک سے باہر ہیں، کون ہے جو اس کا کافی وشافی جواب دے سکے۔ ہمارے ہاں قانون کی گرفت سے بچ کر نکلنے والے سابق یا موجودہ بیوروکریٹس، حکمران، سیاست دان اور اہلِ ثروت جو تمام تر عشرتوں کے ساتھ طویل عرصے بیرونِ ملک قیام فرماتے ہیں، اُن سے آج تک کس نے حساب لیا ہے، کوئی ہے جو ان سے حساب لے اور انتقالِ دولت کا قانونی ذریعہ دریافت کرے۔ عمران خان سے جب بعض کرپشن زدہ سیاست دانوں کی پی ٹی آئی میں شمولیت کے بارے میں سوال ہوا تو انہوں نے کہا: ’’میں آصف زرداری کے سوا سب کو ڈرائی کلین کر کے پاک کردوں گا ‘‘، الغرض تطہیری سند حاصل کرنے کے لیے صرف فلور کراسنگ کافی ہے۔
کرپشن کے خلاف شور وغوغا تو ایک عرصے سے جاری ہے اور بلا شبہ اس میں سب سے توانا آواز جناب عمران خان کی ہے، مگر ایک جامع، کامل اور سخت گیر نظامِ احتساب بنانے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں ہے اور نہ ہی پی ٹی آئی سمیت کسی جماعت نے اپنی طرف سے پیش رفت کر کے کوئی پرائیویٹ مسودۂ قانون پارلیمنٹ میں پیش کیا ہے، بلکہ خیبر پختون خوا کا ادارۂ احتساب بھی بے اثر رہا اور اس پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ہمارا وطنِ عزیز معاشرے کی مذہبی، سیاسی، گروہی، طبقاتی، لسانی اور علاقائیت پر مبنی تقسیم در تقسیم کے سبب کسی انقلاب یا حقیقی تبدیلی کے لیے سازگار نہیں ہے۔ ہمارے مقدر میں صرف دعوے، نعرے، فریب وسَراب، یوٹوپیا اور تخیُّلاتی ہیولے ہیں، حقیقت نہ کبھی تھی، نہ ہے اور نہ مستقبلِ قریب میں اس کے کوئی امکانات ہیں، اِلَّا یہ کہ قادرِ مطلق کے تکوینی فیصلے کے تحت پردۂ غیب سے کوئی صورت اچانک نمودار ہوجائے اور سب کچھ الٹ پلٹ ہوجائے۔ سو نواز شریف رہیں یا مستعفی ہوں، ہمیں تدریجی ارتقا پر ہی قناعت کرنی ہوگی۔