ابوالحسن علی ندویؒ
میری معلومات زیادہ تر مذہبی ہیں، ہمارے پیغمبر صاحب نے ایک مثال دی، اس سے بہتر مثال مجھے اب تک نہیں ملی، میں اس لیے بھی اسے بیان کرتا ہوں کہ ایسی تصویر کھینچ دینے والی مثال مجھے نہیں ملی۔ ظلم وستم، انارکی، بدنظمی، فتنہ وفساد یہ اگر دنیا میں آئے تو اس کو روکنا چاہیے ہمت کر کے، چاہے اس میں کتنا نقصان ہو جائے، اگر نہیں روکو گے تو تم بھی نہیں بچو گے، اس کی آپؐ نے مثال دی کہ (1) ایک کشتی ہے، اس پر لوگ جا رہے ہیں، دریا کا سفر ہے، اس میں ایک اَپرکلاس ہے، ایک لْوور کلاس ہے، ایک اوپر کا حصہ ہے جیسے کہ آج کل فرسٹ کلاس ہوتا ہے، اور نیچے ڈیک ہوتا ہے، کچھ مسافر ڈیک پر ہیں، اور کچھ مسافر فرسٹ کلاس میں ہیں، پانی کا انتظام اتفاق سے اوپر ہی ہے، کشتی تو دریا میں چل رہی ہے، لیکن دریا سے پانی لینا ہر ایک کے بس کا کام نہیں، ڈول ہو، رسی ہو۔ تو یہ نیچے والے پانی لینے اوپر جاتے ہیں، پانی کی فطرت یہ ہے کہ وہ گرتا ٹپکتا ہے، جب پانی لے کر آئے تو کشتی ہلنے والی تھوڑا اِس پر ٹپکا تھوڑا اْس پر ٹپکا، صاحب لوگوں نے، اَپرکلاس والوں نے آستینیں چڑھا لیں کہ صاحب پانی کی ضرورت آپ کو، پانی کی غرض آپ کو اور پریشان ہم ہوتے ہیں، دیکھیے ہم نے کپڑا بچھا رکھا تھا، فرش بچھا رکھا تھا، آپ نے اس کو بھگو دیا، دیکھیے ہمارے اوپر چھینٹے پڑ گئے، ہم آپ کو پانی نہیں لے جانے دیں گے۔
انھوں نے کہا: پانی کے بغیر کیسے رہا جا سکتا ہے؟ انھوں نے کہا: چاہے جو ہو ہم آپ کو پانی نہیں لے جانے دیں گے۔ حضور اکرمؐ نے فرمایا کہ نیچے والوں نے سوچا کہ پانی تو ہم ضرور لیں گے پانی کے بغیر گزارہ نہیں، ایسا کرو کہ نیچے سوراخ کر لو، اور وہیں سے اپنا ڈول، لوٹا ڈال کر پانی نکال لیا کرو، آپؐ نے فرمایا کہ اگر ان لوگوں میں سمجھ ہے اور ان کو زندگی پیار ی ہے کچھ ہوش گوش ہے تو یہ خوشامد کریں گے، ان کے پاس جائیں گے کہ تم پانی لینے آتے تھے اور ہم ناراض ہوتے تھے، ہم خود پانی پہنچا دیں گے، لیکن خدا کے لیے ہمارے اوپر رحم کھاؤ، کشتی میں سوراخ نہ کرو، اور اگر انھوں نے کہا کہ ہماری بلا سے، ارے بھائی! سوراخ تو نیچے ہو رہا ہے، اوپر تو نہیں ہو رہا ہے، ہم تو اوپر رہتے ہیں ، ہم تو بالا نشین ہیں، ہم تو اپر کلاس کے لوگ ہیں، اور یہ لور کلاس کے ذلیل لوگ ہیں، سوراخ کر رہے ہیں تو نیچے کر رہے ہیں، ہم تو آرام سے رہیں گے، آپؐ نے فرمایا: جب سوراخ ہوگا تو نہ لوور کلاس والے بچیں گے اور نہ اپر کلاس والے بچیں گے، کشتی ڈوبے گی تو سب کو لے ڈوبے گی۔ (بخاری میں یہ حدیث مذکور ہے)
آج ہماری سوسائٹی میں، صرف ہندوستان کو نہیں کہتا، ہمارا یہ موجودہ بیسویں صدی کا سماج ایسی ہی کشتی بن گیا ہے کہ اس میں اپر کلاس والے بھی ہیں، اور لوور کلاس والے بھی ہیں، اپر کلاس والوں کی پیشانی پر بل آتے ہیں، اور یہ بات بات پر اپنا امتیاز ثابت کرتے ہیں، اور احساس برتری میں مبتلا ہیں، نیچے والے کہتے ہیں (نیچے اوپر کا فرق یوں سمجھیے کہ جس کو ضرورت پڑتی ہے اس کو آپ لور کلاس سمجھ لیجیے، اور جسے ضرورت نہیں پڑتی اسے اپر کلاس) کہ ہمیں کام سے کام ہے، ہم کچھ نہیں دیکھتے ہمارا کام تو نکلنا چاہیے، کرپشن ہے، ذخیرہ اندوزی ہے، بلیک مارکیٹنگ ہے، بے ایمانی ہے، کام چوری ہے، مزدور کام نہیں کرتا، مزدوری زیادہ لینا چاہتا ہے، اور جو مالک ہے مل اور کارخانے کا، وہ چاہتا ہے کہ یہ کام تو کرے پورا سولہ آنے، اور اگر کوئی ایسا قانون ہو کہ ایک آنہ ہم دے سکیں تو ایک ہی آنہ دیں ، نتیجہ یہ ہے کہ ہر ایک کام نکالنا چاہتا ہے، سب لوگ اِن ڈائرکٹ (Indirect) طریقے پر سوراخ کر کے پانی بھر رہے ہیں، پوچھنا پاچھنا کچھ نہیں، اپنا کام ہے، اللہ نے ہم کو ہاتھ دیے ہیں، پاؤں دیے ہیں، سمجھ دی ہے، جو کچھ ہماری سمجھ میں آئے گا کریں گے، اب سماج میں جو لوگ سمجھ دار ہیں، دانش ور ہیں، اسکالر ہیں، محب وطن اور ملک کو چاہنے والے ہیں، اگر انھوں نے کہا: ہماری بلا سے یہ جانیں ان کا کام جانے، ہم آنکھیں بند کر لیتے ہیں، یہ چاہیں مریں، جئیں، تو نتیجہ کیا ہوگا؟
کشتی میں پانی بھرے گا، کشتی ڈوبے گی، اور بھائی جب کشتی ڈوبے گی تو امتیاز نہیں کرے گی، آگ جب کسی گاؤں میں لگتی ہے تو وہ امتیاز نہیں کرتی کہ یہ مسلمان کا گھر ہے، یہ ہندو کا گھر ہے، یہ شریف آدمی کا گھر ہے، یہ خاں صاحب کا گھر، یہ شیخ صاحب کا گھر، یہ پنڈت جی کا گھر، یہ فلاں کا گھر، کچھ نہیں، آگ تو اندھی بہری ہوتی ہے، جب لگتی ہے تو سب جلا کر خاک سیاہ کر دیتی ہے، سیلاب آتا ہے تو وہ امیر غریب، اونچے نیچے میں کوئی فرق نہیں کرتا۔
ہمارا سماج ڈانواں ڈول
میں آپ سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آج سماج کی کشتی ڈانواں ڈول ہو رہی ہے، اور اس میں بہت سے مسافر ایسے ہیں جو اس میں سواراخ کیے ہوئے ہیں اور سوراخ سے اپنا ڈول ڈال کر پانی بھر رہے ہیں، دفتروں میں کیا ہو رہا ہے؟ اسٹیشنوں پر کیا ہو رہا ہے؟ اور ہمارے محلوں میں کیا ہو رہا ہے؟ آدمی کو بس اپنے کا م سے مطلب ہے اور کسی چیز سے مطلب نہیں، ہمارا الو سیدھا ہونا چاہیے، (ہماری زبان کا بہت پھوہڑ سا محاورہ ہے کہ ہمارا اْلو سیدھا ہونا چاہیے) باقی ہم کو مطلب نہیں کہ کس پر کیا گزرتی ہے، اس فلسفے پر سب کا عقیدہ ہے، نتیجہ یہ ہے کہ سارا ملک اپنا فائدہ دیکھ رہا ہے۔
وہی بات ہوئی کہ ایک بادشاہ تھا، اس نے ایک تالاب بنایا اور اعلان کیا کہ ہمیں دودھ کا حوض چاہیے، سب لوگ اس میں دودھ ڈالیں، ایک ایک بالٹی دودھ لائیں اور ہم سے پیسے لے لیں، ہر شخص نے یہ سوچا، میں نے سوچا، آپ نے سوچا کہ ارے بھائی! سب لوگ تو دودھ کی بالٹیاں لائیں گے، ایک میں نے اگر پانی کی بالٹی ڈال دی تو کیا پتا چلے گا؟کون اس کو کیمیاوی طریقے پر دیکھے گا کہ دودھ کی بالٹیوں میں کتنی پانی کی بالٹیاں ہیں، اور کون لایا تھا؟ ایک شخص چلا، وہ پانی کی بالٹی لے چلا، اور اس نے پانی کی بالٹی ڈال دی، ہر ایک نے ایسا ہی کیا، ہر آدمی نے اسی ذہن سے سوچا، اور اتفاق سے دودھ کی بالٹی والوں نے بھی یہی سوچا کہ پانی کی بالٹی ڈالیں، نتیجہ یہ ہوا کہ صبح بادشاہ سلامت آئے خوش و خرم کہ حوض لبالب سفید دودھ سے بھرا ہوگا، اور ہم اس پر فخر کریں گے کہ ہم نے دودھ سے حوض بھر دیا، دیکھا کہ وہاں تو پانی بھرا ہوا ہے، ارے یہ کیا غضب ہوا؟ معلوم ہوا کہ پورے شہر نے ایک ہی دماغ سے سوچا۔
آج مشکل یہ ہے کہ ہر شخص کا دماغ ایک طرح کا ہو رہا ہے، کچھ لوگوں کا استثنا تو آپ کو کرنا ہوگا، خدا نے پانچ انگلیاں برابر نہیں کیں، لیکن پانی کی بالٹی والا رجحان (Trend) بڑھ رہا ہے، اور یہ خیال کہ ہمیں پیسے لینے ہیں، ہمیں خدا سے شرم آنی چاہیے اور کوئی بات ایمانداری کے خلاف نہیں کرنی چاہیے، یہ چیز سکڑتی اور سمٹتی چلی جا رہی ہے، ہم یقین کرتے ہیں فوری فائدہ میں۔
ہماری سوسائٹی کی بیماری یہ ہے کہ ہر ایک اپنی مٹھی فوراً گرم کرنا چاہتا ہے، بھائی! ایک دو، دوچار ہزار کی مٹھی گرم ہونے سے کچھ نہیں ہوتا، اس سوسائٹی کا کیا ہوگا جس میں مٹھی تو گرم ہوگئی، لیکن سوسائٹی بجھتی جا رہی ہے، ٹھنڈی پڑتی چلی جا رہی ہے، آج ہمارا عقیدہ جمتا چلا جا رہا ہے کہ جس کام سے چار پیسے ملیں وہی کا م عقلمندی کا ہے، ہر گز وہ عقل مندی کا نہیں ہے، مَن ماریے پھر آپ کا مَن خوش ہوگا، آپ کے مَن کو آسودگی اور اطمینان حاصل ہوگا، لیکن سب جلد سے جلد اگر مَن خوش کرنا چاہیں تو پھر کسی کا مَن خوش نہیں ہوگا، پھر آپ دیکھیے گا کہ یہ سوسائٹی، یہ دنیا وبال بن جائے گی اور لوگ پنا ہ مانگیں گے، اور کہیں گے خدا موت دے۔
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
ایسے سماج میں موت کی خواہش ہوتی ہے، اور آج اگر آپ لوگوں کو تلاش کریں گے تو کتنے بھائی آپ کو ایسے ملیں گے جو مرنا پسند کرتے ہیں، اس جینے سے تو مرنا اچھا، ہم نے شاعروں کا کلام پڑھا ہے، ادیبوں کی تحریریں دیکھی ہیں کہ جب یہ لالچ کی بلا، یہ پیسے کی محبت بڑھ گئی، سب نے اپنی مٹھی گرم کرنی چاہی، سب نے اپنے دل کو خوش کرنا چاہا، پھر نتیجہ یہ ہوا کہ جس طرح مچھلی کو پانی سے نکال کر آپ باہر ڈال دیجیے اس کا دم گھٹنے لگتا ہے، اسی طرح پوری سوسائٹی کا دم گھٹنے لگا، پوری سوسائٹی ایسی ہو رہی ہے کہ جو پاک ہے، قانون پر چلنے والا ہے، اس کا گزر نہیں، اور جو قانون کو پاؤں کے نیچے مسل دینے والا ہے، اس کی جیت ہے، اس کا بول بالا ہے، نتیجہ یہ ہے کہ جو لوگ اس راستے پر چلنا چاہتے ہیں، وہ بھی تھوڑے دنوں کے بعد وہ راستہ چھوڑ دینا چاہتے ہیں۔