مولانا اشرف علی تھانویؒ
حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسی عورت سے نکاح کرو جو محبت کرنے والی ہو اور بچے جنے والی ہو، کیونکہ تمہاری زیادتی سے دوسرے اْمتوں پر فخر کروں گا کہ میری اْمت اِتنی زیادہ ہے۔ (ابوداؤد و نسائی)
اولاد کا ہونا بھی کتنا بڑا فائدہ ہے، زندگی میں بھی کہ وہ سب سے بڑھ کر اپنے خدمت گزار اور مددگار اور فرمانبردار اور خیر خواہ ہوتے ہیں اور مرنے کے بعد اس کے لیے دْعا ( اور ایصالِ ثواب بھی کرتے ہیں) اور اگر آگے نسل چلی تو اْس کے دینی راستے پر چلنے والے مدتوں تک رہتے ہیں اور مرنے کے بعد بھی برابر اِس کو ثواب ملتا رہتا ہے اور قیامت میں بھی (بڑا فائدہ ہے)۔ اِسی طرح جو بچے بچپن میں مر گئے وہ اِس کو بخشوائیں گے۔ جو بالغ ہو کر نیک ہوئے وہ بھی (اپنے والدین کے لیے) سفارش کریں گے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی تعداد بڑھتی ہے جس سے دْنیا میں بھی قوت بڑھتی ہے اور قیامت میں ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہو کر فخر فرمائیں گے۔ (حیاۃ المسلمین)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اَولاد سے محبت
حق تعالیٰ نے اولاد کی محبت والدین کے دِل میں پیدا کی ہے اَور یہ ایسی محبت ہے کہ جو مقدس ذاتیں محض حق تعالیٰ ہی کی محبت کے لیے مخصوص ہیں وہ بھی اِس محبت سے خالی نہیں۔ سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضراتِ حسنین سے ایسی محبت تھی کہ ایک بار آپ خطبہ پڑھ رہے تھے کہ اِتنے میں حضرات حسنین بچے تھے لڑکھڑاتے ہوئے مسجد میں آ گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اْن کا لڑکھڑانا دیکھ کر نہ رہا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے درمیانِ خطبہ ہی ممبر سے اْتر کر اْن کو گود میں اْٹھا لیا اور پھر خطبہ جاری فرمایا۔ اگر آج کوئی شیخ ایسا کرے تو جہلا اْس کی حرکت کو خلافِ وقار کہتے ہیں۔ مگر وہ زبان سنبھالیں کیسا وقار لیے پھرتے ہیں آج کل لوگوں نے تکبر کا نام وقار اور خود داری رکھ لیا ہے۔ اور وفات کے واقعات میں یہ ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صاحبزادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کے وصال کے وقت رنج و غم کا اظہار فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور زبان سے یہ بھی فرمایا: اے ابراہیم! ہم کو تمہاری جدائی کا واقعی صدمہ ہے۔ الغرض اَولاد کی محبت سے ذواتِ قدسیہ بھی خالی نہیں۔ یہ تو حق تعالیٰ کی حکمت ہے کہ ہمارے اَندر اَولاد کی محبت پیدا کر دی اور اگر یہ داعی نہ ہوتا تو ہم اْن کے حقوق اَدا نہ کرسکتے۔
اَولاد کی محبت کیوں پیدا کی گئی ؟
بچے جو گوہ کا ڈھیر اور موت کی پوٹ ہیں۔ اْن کی پرورش بغیر قلبی داعیہ (اور جذبہ) کے ہوہی نہیں سکتی۔ بچے تو ہر وقت اپنی خدمت کراتے ہیں، خود خدمت کے لائق نہیں اْن کی حرکتیں بھی مجنونانہ (پاگل پن کی سی ہوتیں) ہیں مگر حق تعالیٰ نے ایسی محبت پیدا کر دی ہے کہ اْن کی مجنونانہ حرکت بھی بھلی معلوم ہوتی ہیں حتی کہ بعض دفعہ وہ کبھی خلاف تہذیب کام کرتے ہیں جس پر سزا دینا عقلاً ضروری ہوتا ہے، مگر بچوں کے متعلق عقلمندوں میں اِختلاف ہو جاتا ہے، ایک کہتا ہے سزا دی جائے، دْوسرا کہتا ہے نہیں بچے ہیں اِن سے ایسی غلطی ہو ہی جاتی ہے معاف کر دینا چاہیے۔ غرض اپنے بچوں کو تو کیوں نہ چاہیں، دْوسرے کے بچوں کو دیکھ کر پیار آتا ہے اور اْن کی حرکتیں اچھی معلوم ہوتی ہیں۔ اگر یہ محبت کا تقاضا اور داعیہ نہ ہو تو راتوں کو جاگنا اور گوہ موت کرانا دشوار ہو جاتا۔ کسی غیر کی بچے کی خدمت کر کے دیکھو تو حقیقت معلوم ہو جائے گی۔ گو خدا کا خوف کر کے تم روزانہ اْس کی خدمت کر دو مگر دِل میں ناگواری ضرور ہو گی۔ غصّہ بھی آئے گا سوتیلی اَولاد کی خدمت اِس لیے گراں ہوتی ہے کہ اِس کے دِل میں اْن کی محبت نہیں ہوتی۔ چونکہ اَولاد کی محبت بغیر محبت کے دْشوار تھی اِس لیے حق تعالیٰ نے اولاد کی محبت والدین کے دِل میں ایسی پیدا کر دی کہ اَب وہ اْس کی خدمت کرنے پر مجبور ہیں۔