غلامی سے نجات؟

227

zc_ZairOZabarاتوارکے روزپروفیسر صاحب کے گھر پہنچے اور اُنہیں افسردہ پایا۔ ہفتہ کے کسی اوردِن پہنچتے تب بھی اُنہیں ایسا ہی پاتے۔ اُردو کے اُستاد ہیں۔ لڑکوں کو ماضی تمنّائی اور ماضی شکّی بہت اچھا پڑھاتے ہیں۔ ایک روز ایک لڑکا پوچھنے لگا کہ:
’’سر! ماضی شکّی اور ماضی مشکوک میں کیا فرق ہے؟‘‘
اِس بیہودہ سوال پر اُنہیں خود اپنا ماضی یاد آگیا۔ کئی دِنوں تک افسردہ رہے۔ کہاکرتے تھے کہ:
’’ہم نئی نسل سے مستقبل تمنّائی کی اُمید رکھتے ہیں، مگر اس کا حال یا حالیہ ماضی ہی نہیں مستقبل بھی مشکوک ہوکر رہ گیا ہے‘‘۔
پوچھاکہ:’’وہ کیسے؟‘‘
فرمایا:’’آج ہی میراننھاپوتاامتحان دے کر آیاہے۔’پریپ‘ میں ہے۔میاں اب’ کچی پہلی ‘اور’پکّی پہلی‘ کا مذاق اُڑتاہے۔ لیکن ملّتِ اسلامیہ پاکستان کے نومولود بچوں کو پنگوڑے سے اُٹھا کر Preparatory Class میں بِٹھا دیا جائے اور اُسے Prep. کہا جائے توکسی کو ہنسی آتی ہے نہ مذاق سوجھتاہے۔اکبرؔ تو صرف اِسی بات کورو رہے تھے کہ:
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
مگراُنہیں کیا معلوم تھا کہ آگے چل کر یہ قوم بنی اسرائیل سے بھی گئی گزری ہوجائے گی اور فراعنۂ عالم کی خوشنودی حاصل کرنے کو خوداپنے ہاتھوں سے اپنے بچوں کوقتل کرکرکے فخرومباہات کا اظہار کیاکرے گی‘‘۔
گھبرا کر پوچھا:’’ پروفیسر صاحب !ہواکیا ہے؟‘‘
ایک آہِ سرد بھر کر فرمایا:’’ بھائی! ہوایہ کہ میراننھاپوتاامتحان دے کر آیاتو میں نے پوچھا کہ بیٹاآج کس مضمون کا پرچہ تھا؟پہلے تو یہ سوال ہی اُس کی سمجھ میں نہیں آیا۔ جب ماں نے سمجھایا کہ:
’’ دادااَبو یہ پوچھ رہے ہیں کہ:کس سبجیکٹ کاپیپر تھا؟‘‘
تو کہنے لگا:’’جی -کے کا‘‘۔
یہ’’کی-کے-کا‘‘ ٹائپ جواب میری سمجھ میں نہیں آیا۔ میں نے اُس کی ماں کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا توبہونے مجھے پڑھانے والے انداز میں بتایا:
’’ اباجان!… ’جی -کے‘… جنرل نالج کوکہتے ہیں…‘‘
پروفیسر صاحب کی بات کاٹ کر عرض کیا:
’’جنرل نالج پر ایک پرانا قصہ یاد آگیا۔ پروفیسر صاحب ! آپ کوبھی یاد ہوگا ۔ چھٹی جماعت کا قصہ ہے۔ ایک بار ہماری انگریزی کی کلاس میں سیاہ فام خواجہ انجم خلجی نے جو انگریزی کے پرجوش حامی ہونے کی وجہ سے ’لارڈ میاں کالے ‘ کہے جاتے تھے‘ اِسی لفظ کو ’جنرل کنالج‘ پڑھ دیا تھا۔ جس پر قریشی صاحب بہت ہنسے اور اُنہوں نے انگریزی زبان کی اور بھی کئی بوالعجبیاں ہمیں بتائیں ‘‘۔
’’ ہاں میاں خوب یاد ہے۔ بلکہ اِس سے بھی زیادہ دلچسپ ایک اور واقعہ یاد ہے۔ ایک بارخیرپورناتھن شاہ کے لالہ لچھمن لال نے ایک انگریزی اخبار میںGeneral Knowledge کی سرخی دیکھی تو اس کو ’’جنرل کنؤ…لَد گئے‘‘ پڑھ لیا۔لالہ جی اِسے ’بریکنگ نیوز‘ سمجھے اوریہ خبر پڑھ کر خاصی دیر تک ملول رہے۔ یعنی نامعلوم جنرل صاحب کا ’دیہانت‘ ہو جانے پربہت دیر سوگوار رہے۔میں نے بھی دلاسہ دیا :
’’ لالاجی کیوں دُکھی ہوتے ہو؟آخر ایک نہ ایک دِن ہم تُم سبھی لد جائیں گے‘‘۔
یہ سن کر لالاجی نے اپنی چندیا سہلاتے ہوئے تائید کی۔ کہنے لگے: ’’سچ کہتے ہو۔ سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لادچلے گا بنجارہ‘‘۔
موضوع پر واپس لانے کے لیے عرض کیا:
’’بات تو آپ کے ننھے پوتے کی ہورہی تھی جو ’جی- کے‘ کا امتحان دے کر آیاتھا‘‘۔
باقی بات وہیں چھوڑی اور جلدی سے پلٹ آئے:
’’ہاں میاں! خوب یاددِلایا۔میں نے بچے کا پرچہ دیکھا۔ انگریزی زبان میں چھوٹے چھوٹے معروضی سوالات تھے۔ ارے وہی جو ’آبجیکٹِو ٹائپ کہلاتے ہیں…‘‘
عرض کیا:’’پروفیسر صاحب! اب تو وہ آبجیکٹو ٹائپ بھی نہیں کہلاتے۔ اب اُن کو MCQs کہاجاتاہے۔ Multiple Choice Questions‘‘۔
سلسلۂ کلام جاری رکھتے ہوئے بولے:
’’اماں جوبھی ہو… ہاں،تو بچے نے تمام سوالات پرنشان لگارکھا تھا،سوائے ایک سوال کے۔میں نے پوچھا کیوں میاں تُم نے اِس سوال پر نشان کیوں نہیں لگایا؟ اُس نے جواب دیا:’اِس سوال کا جواب مجھے نہیں آتا‘۔میں نے کہا: ’یہ تو بہت آسان سوال ہے‘۔ اُس نے پھر یہی کہا کہ:’اِس سوال کا جواب مجھے نہیں آتا‘۔میں نے پوچھا :’ اچھا یہ بتاؤ کہ اگر پٹرول کے سامنے ماچس جلائی جائے تو کیا ہوگا؟‘ بچے نے جھٹ جواب دیا:’ آگ لگ جائے گی‘۔میں نے کہا:’ بیٹا!بزبانِ انگریزی اِس سوال میں یہی تو پوچھا گیا ہے‘۔ اُس نے پھر یہی جواب دیا:’اِس سوال کا جواب مجھے نہیں آتا‘۔ اب میں نے باقی سوالات کے معانی پوچھے، جن کے وہ انگریزی میں درست جواب لکھ کر آیاتھا، تو معلوم ہواکہ مطلب کسی بھی سوال کا اُسے خاک نہیں آتا، مگر صرف انگریزی رٹا رٹاکر اسکول نے اُسے ’جی- کے‘ میں نِنّانوے فی صد نمبروں سے اوّل بدرجۂ اوّل پاس کردیا۔ارے میاں کچھ اِس موضوع پر بھی تو لکھو ‘‘۔
پوچھا:’’کیالکھیں؟‘‘
فرمایا:’’یہی لکھو کہ… کچھ علاج اِس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں؟… اوریہ کہ کیا ہمارے بچوں سے اُن کے مشاہدے، اُن کے دیکھنے، اُن کے سننے اور اُن کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی سلب کرلی جائے گی؟
غلامی سے نجات؟
کیا اُنہیں کلّی طورپرمحض اغیار کی اندھی،گونگی اوربہری غلامی ہی کے لیے مینوفیکچر کیا جائے گا؟‘‘
عرض کیا:’’اِس موضوع پرتو بہت کچھ لکھا اور بہت کچھ لکھ سکتے ہیں۔مگر موضوع کی زَد میں ہمارے کچھ ایسے ساتھی بھی آجائیں گے جواِس مظلوم قوم کو غلامی سے نجات دِلانے اور ملک میں تعلیمی انقلاب لانے کے علمبردار ہیں۔تاہم اپنے نامور نجی، کاروباری تعلیمی اِداروں میں وہ بھی یہی کچھ کررہے ہیں۔ لہٰذاہماری طرف سے بھی معذرت اور وہی جواب قبول کیجیے جو آپ کو آپ کے پوتے نے دیا تھاکہ:
’’یہ مجھے نہیں آتا‘‘۔
پروفیسر صاحب نے اپنے مقدّر پر(مُراداُن کی وسیع وعریض پیشانی سے ہے) ایک دوہتڑ مارا اور فرمایا:
’’ہائے رام! جنرل کنَؤ…لَد گئے!‘‘