شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ

432

مقصود الحسن فیضی
اللہ تبارک و تعالی جب اپنے کسی بندے سے کوئی خاص اور اہم کام لینا چاہتا ہے تو جہاں ایک طرف اس کام کے لحاظ سے اس کی تربیت و تعلیم کے مواقع فراہم کرتا ہے وہیں دوسری طرف اس راہ میں پیش آنے والی دشواریوں کو بھی آسان کرتا اور اس بندے کو ہر آزمائش میں کامیاب بھی بناتا ہے۔ یہی کچھ حضرت شیخ الامام عبد القادر رحمۃ اللہ کے ساتھ بھی ہوا کہ طلب علم کی راہ میں انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جیسے وطن سے دوری، بھوک و پیاس اور تنگ دستی۔ لیکن اللہ تبارک و تعالی نے متعدد مقامات پر ان کی ایسی دستگیری فرمائی کہ ان کے پائے ثبات متزلزل نہ ہونے پائے، شیخ عبد القادر رحمہ اللہ خود بیان کرتے ہیں کہ طالب علمی کے زمانے میں بسا اوقات خرنوب نامی کانٹے دار درخت، سبزیوں کے گرے پڑے ٹکڑے اور خس کے پتے کھا کر گزارہ کرتا تھا۔ (السیر، ذیل الطبقات)
ایام طالب علمی کا اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار میں بیابان میں فقہ کے درس کا مراجعہ کر رہا تھا اس وقت مجھے سخت بھوک پیاس کا احساس ہوا، جب میں بہت تنگ آگیا تو غیب سے ایک آواز آتی ہے لیکن کوئی آواز دینے والا دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ آواز دینے والا کہہ رہا تھا کہ قرض لے کر علم فقہ حاصل کرنے پر مدد حاصل کرو۔ میں نے جواب دیا کہ قرض کی ادائیگی کا میرے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے، میں فقیر ہوں اگر قرض لیتا ہوں تو اس کی ادائیگی کیسے کر پاؤں گا۔ آواز دینے والے نے کہا: قرض لے لو ادائیگی میں کر دوں گا۔ چنانچہ میں ایک دکان پر آیا اور دکاندارسے کہا کہ تم مجھے روزانہ ایک روٹی اور کچھ حب رشاد اس شرط پر دے دیا کرو کہ جب میرے پاس ادائیگی کی طاقت ہوگی تو میں ادا کر دوں گا اور اگر میں مرگیا تو مجھے معاف کر دینا۔ میری یہ بات سن کر وہ رونے لگا اور کہا کہ آپ جس طرح چاہیں میں تیار ہوں۔ خلاصہ یہ کہ میں ایک مدت تک اس سے روٹی اور حب رشاد لیتا رہا اس طرح کافی دن گزر گئے تو مجھے بڑی الجھن محسوس ہوئی کہ میں کب تک اس سے اس طرح لے کر کھاتا رہوں گا، اس پر ابھی تھوڑی ہی مدت گزری ہوگی کہ مجھے محسوس ہوا کہ کوئی شخص مجھ سے کہہ رہا ہے فلاں جگہ چلے جاؤ اور اس جگہ جو چیز بھی ملے تم اسے اٹھا لو اور دکاندار کا قرض ادا کر دو۔ چنانچہ میں وہاں پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں سونے کا ایک ٹکڑا پڑا ہے اسے میں نے لے لیا اور دکاندار کا قرض ادا کرد یا۔ (السیر، ذیل الطبقات)
اسی طرح شیخ رحمہ اللہ اپنا ایک اور واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار سخت مہنگائی کے ایام میں مجھے بہت ہی تنگی کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ کئی دن تک مجھے کچھ کھانے کو نہ ملا۔ صورت حال یہ تھی کہ میں گری پڑی چیزیں اٹھا کر کھاتا رہا، یہاں تک کہ ایک دن سخت بھوک کی وجہ سے میں گھر سے نکلا اور دریا کی طرف چلا کہ شاید وہاں کوئی سبزی کا پتہ یا اور کوئی چیز مل جائے جس سے میں اپنے بھوک کی آگ بجھاؤں۔ اس تلاش میں جس جگہ بھی پہنچتا دیکھتا کہ فقیر و مسکین لوگ ہم سے پہلے وہاں پہنچ چکے ہیں چنانچہ میں شرما کر واپس ہو جاتا۔ یہ صورت حال دیکھ کر وہاں سے واپس ہوا کہ شاید شہر میں کوئی گری پڑی چیز بھوک مٹانے کے لیے مل جائے لیکن کوئی چیز کھانے کے لیے نہ مل سکی اب میں بہت تھک چکا تھا اور مجھ میں برداشت کی طاقت نہ رہ گئی تھی اس لیے ایک مسجد میں جا کر بیٹھ گیا اور موت کا انتظار کرنے لگا، اتنے میں دیکھتا ہوں کہ ایک اجنبی نوجوان مسجد میں داخل ہوتا ہے اس کے پاس روٹی اور بھونا ہوا گوشت تھا وہ بیٹھ کر کھانے لگا، میں اس کی طرف للچلائی نظروں سے دیکھ رہا تھا، وہ جب بھی کوئی لقمہ اٹھا تھا تو لالچ سے میرا منہ کھل جاتا کچھ دیر میں وہ میری طرف متوجہ ہوا اور کہا کہ بسم اللہ کرو، میں نے انکار کیا لیکن اس نے قسم دلائی کہ تمہیں ضرور کھانا ہے چنانچہ میں بھی اس کے ساتھ تھوڑا تھوڑا کھانے لگا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ تم کون ہو، کیا کرتے ہو اور تمہارا گھر کہاں ہے؟ میں نے اسے بتلایا کہ میں گیلان کا رہنے والا ایک متفقہ (طالب فقہ) ہوں، اس نے کہا کہ میں بھی گیلان کا رہنے والا ہوں، کیا تم مجھے ایک گیلانی نوجوان کے بارے میں کچھ بتلا سکتے ہو جس کا نام عبد القادر ہے اسے لوگ سبط ابو عبد اللہ الصومعی الزاہد کے نام سے جانتے ہیں، میں نے جواب دیا کہ وہ تو میں ہی ہوں، یہ سن کر وہ پریشان ہوگیا، اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور کہنے لگا: اللہ کی قسم اے بھائی! میں جب بغداد پہنچا تو میرے پاس کچھ زاد سفر باقی تھا، میں تمہارے بارے میں پوچھتا رہا لیکن تمہارے بارے میں کسی نے کوئی خبر نہ دی، یہاں تک کہ میرا زاد راہ ختم ہوگیا، حتی کہ تین دن ایسے گزر گئے کہ میرے پاس تمہاری امانت کے علاوہ کوئی اور چیز باقی نہ رہ گئی، اس لیے جب آج چوتھا دن ہوا تو میں نے اپنے دل میں کہا کہ بھوک پر تین دن گزر گئے اب تو میرے لیے مردار بھی حلال ہے اس لیے تمہاری امانت میں ایک روٹی اور بھونے ہوئے گوشت کے اس ٹکڑے کی قیمت لے لی۔ یہ لو کھاؤ یہ تمہارا مال ہے اور میں اب تمہارا مہمان ہوں۔ ہم نے اس سے پوچھا کہ اصل قصہ کیا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ تمہاری ماں نے مجھے آٹھ دینار دے کر بھیجا تھا واللہ اس میں سے ہم نے کوئی خیانت نہیں کی ہے۔ شیخ کہتے ہیں کہ میں نے اسے تسلی دی، اس کے دل کو اطمینان دلایا اور جو امانت لے کر آیا تھا اس میں سے کچھ اسے بھی دے دیا۔ (السیر، ذیل الطبقات)