دعا کیوں اور کس سے؟

397

سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ
دعا کی روح کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے تین باتیں اچھی طرح سمجھ لینی چاہییں:
اوّل یہ کہ دعا آدمی صرف اْس ہستی سے مانگتا ہے جس کو وہ سمیع و بصیر اور فوق الفطری اقتدار (Powers Supernatural) کا مالک سمجھتا ہے، اور دعا مانگنے کا محرِک دراصل آدمی کا یہ اندرونی احساس ہوتا ہے کہ عالمِ اسباب کے تحت فطری ذرائع ووسائل اس کی کسی تکلیف کو رفع کرنے یا کسی حاجت کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں یا کافی ثابت نہیں ہو رہے ہیں، اس لیے کسی فوق الفطری اقتدار کی مالک ہستی سے رجوع کرنا ناگزیر ہے۔ اس ہستی کو آدمی بے دیکھے پکارتا ہے۔ ہر وقت، ہر جگہ، ہر حال میں پکارتا ہے۔ خلوت کی تنہائیوں میں پکارتا ہے۔ بآواز بلند ہی نہیں، چپکے چپکے بھی پکارتا ہے، بلکہ دل ہی دل میں اس سے مدد کی التجائیں کرتا ہے۔ یہ سب کچھ لازماً اِس عقیدے کی بنا پر ہوتا ہے کہ وہ ہستی اْس کو ہر جگہ ہر حال میں دیکھ رہی ہے، اس کے دل کی بات بھی سن رہی ہے۔ اور اْس کو ایسی قدرت مطلقہ حاصل ہے کہ اسے پکارنے والا جہاں بھی ہو وہ اس کی مدد کو پہنچ سکتی ہے اور اس کی بگڑی بنا سکتی ہے۔ دعا کی اس حقیقت کو جان لینے کے بعد یہ سمجھنا آدمی کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں رہتا کہ جو شخص اللہ کے سوا کسی اور ہستی کو مدد کے لیے پکارتا ہے وہ درحقیقت قطعی اور خالص اور صریح شرک کا ارتکاب کرتا ہے، کیونکہ وہ اْس ہستی کے اندر اْن صفات کا اعتقاد رکھتا ہے جو صرف اللہ تعالیٰ ہی کی صفات ہیں۔ اگر وہ اس کو اْن خدائی صفات میں اللہ کا شریک نہ سمجھتا تو اس سے دعا مانگنے کا تصوّر تک کبھی اس کے ذہن میں نہ آسکتا تھا۔
دوسری بات جو اس سلسلے میں اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے وہ یہ ہے کہ کسی ہستی کے متعلق آدمی کا اپنی جگہ یہ سمجھ بیٹھنا کہ وہ اختیارات کی مالک ہے، اس سے یہ لازم نہیں آ جاتا کہ وہ فی الواقع مالکِ اختیارات ہو جائے۔ مالک اختیارات ہونا تو ایک امرِ واقعی ہے جو کسی کے سمجھنے یا نہ سمجھنے پر موقوف نہیں ہے۔ جو درحقیقت اختیارات کا مالک ہے وہ بہر حال مالک ہی رہے گا، خواہ آپ اسے مالک سمجھیں یا نہ سمجھیں۔ اور جو حقیقت میں مالک نہیں ہے، اس کو محض یہ بات کہ آپ نے اسے مالک سمجھ لیا ہے، اختیارات میں ذرّہ برابر بھی کوئی حصّہ نہ دلوا سکے گی۔ اب یہ بات ایک امرِ واقعی ہے کہ قادرِ مطلق اور مدبّرِ کائنات اور سمیع و بصیر ہستی صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ہے اور وہی کلّی طور پر اختیارات کا مالک ہے۔ دوسری کوئی ہستی بھی اس پوری کائنات میں ایسی نہیں ہے جو دعائیں سننے اور اْن پر قبولیت یا عدم قبولیت کی صورت میں کوئی کارروائی کرنے کے اختیارات رکھتی ہو۔ اِس امرِ واقعی کے خلاف اگر لوگ اپنی جگہ کچھ انبیاء اور اولیاء اور فرشتوں اور جنوں اور سیّاروں اور فرضی دیوتاؤں کو اختیارات میں شریک سمجھ بیٹھیں تو اس سے حقیقت میں ذرّہ برابر بھی کوئی فرق رونما نہیں ہوگا۔ مالک، مالک ہی رہے گا اور بے اختیار بندے، بندے ہی رہیں گے۔
تیسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں سے دعا مانگنا بالکل ایسا ہے جیسے کوئی شخص درخواست لکھ کر ایوانِ حکومت کی طرف جائے مگر اصل حاکم ذی اختیار کو چھوڑ کر وہاں جو دوسرے سائلین اپنی حاجتیں لیے بیٹھے ہوں اْنہی میں سے کسی ایک کے آگے اپنی درخواست پیش کر دے اور پھر ہاتھ جوڑ جوڑ کر اس سے التجائیں کرتا چلا جائے کہ حضور ہی سب کچھ ہیں، آپ ہی کا یہاں حکم چلتا ہے، میری مراد آپ ہی بر لائیں گے تو بر آئے گی۔ یہ حرکت اوّل تو بجائے خود سخت حماقت و جہالت ہے، لیکن ایسی حالت میں یہ انتہائی گستاخی بھی بن جاتی ہے جبکہ اصل حاکم ذی اختیار سامنے موجود ہو اور عین اْس کی موجودگی میں اْسے چھوڑ کر کسی دوسرے کے سامنے درخواستیں اور التجائیں پیش کی جا رہی ہوں۔ پھر یہ جہالت اپنے کمال پر اس وقت پہنچ جاتی ہے جب وہ شخص جس کے سامنے درخواست پیش کی جا رہی ہو خود بار بار اْس کو سمجھائے کہ میں تو خود تیری ہی طرح کا ایک سائل ہوں، میرے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے، اصل حاکم تو سامنے موجود ہیں، تو ان کی سرکار میں اپنی درخواست پیش کر، مگر اس کے سمجھانے اور منع کرنے کے باوجود یہ احمق کہتا ہی چلا جائے کہ میرے سرکار تو آپ ہیں، میر اکام آپ ہی بنائیں گے تو بنے گا۔
(تفہیم القرآن، المؤمن، حاشیہ: 38)