گئے کیوں تھے

180

Edarti LOHمشیر خارجہ سینیٹر سرتاج عزیز نے سینیٹ میں انکشاف کیا ہے کہ سابق سپہ سالار راحیل شریف سعودی عرب میں تا حال کسی فوج کی قیادت نہیں کر رہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ایسی کوئی فوج بنی ہی نہیں اور اس کے ٹرمز آف ریفرنسز( ٹی او آرز) بھی طے نہیں ہوئے ۔ اسلامی فوجی اتحاد ، جو ابھی بناہی نہیں ، اس کے قواعد و ضوابط جب کبھی طے ہوں گے تو پارلیمان کو آگاہ کر دیا جائے گا ۔اس انکشاف پر چیئر مین سینیٹ میاں رضا ربانی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسا ہے تو جنرل راحیل شریف سعودی عرب میں کیا کر رہے ہیں ۔ اصول و ضوابط طے نہیں ہوئے اور فوج تیار ہو گئی ۔ اسلامی فوجی اتحاد اور جنرل راحیل شریف کی قیادت ایسا معاملہ ہے جس پر پاکستان میں بڑی لے دے ہوئی ہے اور مختلف قسم کے سوالات اُٹھائے جاتے رہے ہیں کہ اسلامی فوجی اتحاد کی نوعیت کیا ہو گی، یہ کس کے خلاف بنائی جا رہی ہے اور پاکستان کی فوج کے سابق سربراہ کی قیادت پاکستان کے لیے نقصان دہ ہے یا کسی صورت میں فائدہ مند ۔ بنیادی سوال اب بھی اپنی جگہ پر ہے کہ کئی مسلم ممالک پر مشتمل اسلامی فوجی اتحاد کی غرض و غایت کیا ہے اور یہ کس کا مقابلہ کرنے کے لیے بنائی گئی ہے ۔ چونکہ اس کا صدر دفتر اور سارا تنظیمی ڈھانچہ سعودی عرب میں ہے چنانچہ سب سے زیادہ فکر مند ایران ہے جس سے سعودی عرب کے تنازعات ڈھکے چھپے نہیں ہیں ۔ جب کہ ایران پاکستان کا پڑوسی بھی ہے اور تہذیبی و ثقافتی رشتے بھی ہیں ۔ تھوڑی بہت کھٹ پٹ اور پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو ترجیح دینے کے باوجود دونوں ممالک میں دوستانہ تعلقات ہیں ۔ چنانچہ ایران کا خدشہ بجا ہے کہ اسلامی فوجی اتحاد اگر ایران کے خلاف حرکت میں آیا تو اس کے پاکستانی سربراہ کا کردار کیا ہو گا ۔ سعودی عرب اور یمن میں لڑائی جاری ہے ۔ فضائی حملے بھی کیے جا رہے ہیں ۔ چنانچہ اگر اسلامی فوجی اتحاد کو بھی اس جنگ میں ملوث کیا گیا تو راحیل شریف کی وجہ سے پاکستان کی غیر جانبداری مجروح ہو گی ۔ سعودی عرب نے امریکا کے اشارے پر خلیجی ریاست قطر سے بھی لڑائی مول لے لی ہے تاہم ابھی تک اسلامی فوجی اتحاد کو ملوث نہیں کیا گیا ۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ پاک فوج کے سابق سربراہ راحیل شریف سے ان کے منصب کے مطابق سلوک نہیں کیا جا رہا اور وہ خود واپس آنے کی سوچ رہے ہیں ۔ بہر حال جب اسلامی فوجی اتحاد نام کی کوئی فوج بنی ہی نہیں اور راحیل شریف کی سربراہی کی نوبت ہی نہیں آئی تو جنرل راحیل شریف کو کسی تنازع میں پڑنے کے بجائے خود واپس آ جانا چاہیے ۔ صرف ریال اور درہم میں تنخواہ ملنا ہی تو سب کچھ نہیں کہ اس کے لیے دوسروں کی اطاعت کی جائے یا وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی درہم کی خاطر غیر ملک میں نوکری کی جائے ۔ چیئر مین سینیٹ میاں رضا ربانی نے بہت صحیح سوالات کیے ہیں کہ اگر مذکورہ فوجی اتحاد کے ٹی او آرز پاکستان کی مرضی کے مطابق نہ بنے تو حکومت کیا کرے گی؟ فوجی اتحاد نے مشرق وسطیٰ کے کسی ملک کے خلاف کارروائی کی تو مشیر خارجہ صاحب کیا کریں گے۔ سرتاج عزیز کے پاس ان سوالات کا کوئی جواب نہیں ۔و ہ اور راحیل شریف ماضی میںجو کچھ کہہ چکے ہیں اس کو بھی مد نظررکھیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کی کوئی خارجہ پالیسی ہے ہی نہیں اور نام نہاد اسلامی فوجی اتحاد کی بیل منڈھے نہیں چڑھے گی۔