جے آئی ٹی اور وزیر اعظم کی کرپشن

220

Edarti LOHپاناما مقدمہ اوراس پر بننے والی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ پر عدالت عظمیٰ میںسماعت جاری ہے اور کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بس دو چار دن میں فیصلہ آجائے گا۔ فیصلہ جتنی جلدی ہو جائے، اچھا ہے تاہم ہر فریق کو یہی امید ہے کہ فیصلہ اس کی مرضی اور خواہش کے مطابق ہوگا۔ گزشتہ بدھ کو سماعت کے دوران میں عدالت عظمیٰ کی طرف سے ایسا تاثر آیا ہے کہ ’’ جے آئی ٹی میں وزیر اعظم پر کرپشن کا الزام ہے نہ ہی انہوں نے عہدے کا غلط استعمال کیا۔‘‘ نواز شریف کے حمایتی اس تبصرے کو وزیر اعظم کی برأت کے طور پر لے رہے ہیں ۔ تاہم اگلے ہی دن عدالت عظمیٰ نے وزیر اعظم کو سخت انتباہ کیا ہے۔ بہت سے معاملات ابھی تک واضح نہیں ہوئے ہیں۔ قطری شہزادے نے ایک اور خط بھیج دیا ہے۔ یہ خط انہوں نے اپنی حکومت سے تصدیق کروا کر اور لیٹر ہیڈ پر بھیجا ہے۔ اس سے پہلے خط سادہ کاغذ پر بھیجا گیا تھا۔ قطری شہزادے نے ایک بار پھر جے آئی ٹی کو دو حہ آنے کی دعوت دی ہے۔ لیکن اب تو جے آئی ٹی کا کام ختم ہوچکا ہے تاہم یہ سوال بھی اٹھایا جارہا ہے کہ کسی گواہ کا بیان لینے کے لیے اس کے گھر جانے کا کوئی جواز نہیں۔ یہ اسی صورت میں ہوتا ہے جب گواہ معذور ہو یا کسی بھی وجہ سے عدالت میں حاضر ہونے کے قابل نہ ہو۔ قطری شہزادے کی گواہی پر سب سے زیادہ زور شریف خاندان اور وزیراعظم کے حواریوںکی طرف سے دیا جارہا تھا۔ اب نئے خط سے کوئی نیا پنڈورا بکس نہ کھل جائے ۔ بہتر تو یہ ہے کہ شہزادہ حمد بن جاسم کو جواب دے دیا جائے کہ اب ان کے بیان کی کوئی ضرورت نہیں۔ قطری شہزادہ یہ کہہ چکا ہے کہ وہ پاکستانی عدالتوں کا پابند نہیں ۔ یہ صحیح بھی ہے لیکن نواز شریف حکومت ہی نے شور مچا رکھا تھا کہ بیان ضرور لیا جائے جس سے میاں صاحب کی بے گناہی ثابت ہو جائے گی۔ خود میاں صاحب تو بار بار بھولے بن کر پوچھتے پھر رہے ہیں کہ ان کا قصور کیا ہے۔ گزشتہ بدھ کو بھی انہوں نے سیالکوٹ میں خطاب کرتے ہوئے حاضرین سے پوچھا کہ ہمارا قصور کیا ہے، ہمیں لوٹنے والے ہی منی ٹریل مانگ رہے ہیں۔ آج میرا احتساب ہو رہا ہے کل ان کا ہوگا۔ وزیر اعظم نے یہ وضاحت نہیں کی کہ انہیں کس نے لوٹ لیا۔ شاید یہ اشارہ پیپلز پارٹی کی طرف ہو جس کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے ان سے اتفاق فائونڈری چھین لی تھی۔ لیکن یہ کارخانہ جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کا تختہ الٹنے کے بعد واپس دلوا دیا تھا اور ایک خبر کے مطابق صرف ایک روپیا لے کر کارخانہ حوالے کردیا تھا۔ پھر تو ایسی برکت ہوئی کہ کارخانے پر کارخانہ بنتا گیا اور لٹ جانے والا کھرب پتی ہوگیا، کاروبار کئی ملکوں میں پھیل گیا۔ آج اپنے لٹ جانے کا ذکر کرنا مناسب نہیں معلوم ہوتا۔ تاہم اگر لوٹنے کا اشارہ پیپلز پارٹی کی طرف ہے تو اس نے تو وزیر اعظم سے منی ٹریل طلب نہیں کی تھی، یہ کام تو تحریک انصاف ، جماعت اسلامی اور شیخ رشید نے کیا ہے اور وزیر اعظم کو لوٹنے والوں میں ان جماعتوں کا کوئی ہاتھ نہیں ۔ آج بھی عمران خان کا کہنا ہے کہ نواز شریف کا اصل بزنس کرپشن ہے اور یہی ان کا قصور ہے۔ الزامات اور ان کے جوابات کئی بار دوہرائے جا چکے ہیں ۔ کون قصور وار ہے اور کون نہیں ، اب اس کا فیصلہ عدالت کو کرنے دیں ۔ بدھ کی سماعت میں عدالت عظمیٰ کے معزز ججوں نے سوال اٹھایا ہے کہ ’’ کوئی یہ نہیں بتاتا کہ لندن فلیٹس کا اصل مالک کون ہے، ایک کہتا ہے جائداد خریدی، دوسرا کہتا ہے ورثے میں ملی۔‘‘ ابھی اور پرتیں کھلیں گی۔ نواز شریف کے حامی تو کہہ رہے ہیں کہ شریف فیملی نے قانونی طور پر دستیاب تمام دستاویزات دے دیں اور ثبوت فراہم کرنے کی اپنی ذمے داری پوری کردی۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی وزیر اعظم یا ان کے خاندان کے کسی فرد کا ایک بھی غیر اعلانیہ اثاثہ ثابت نہیں کرسکی۔ آف شور کمپنی کا الزام بھی غلط ہے اور یہ بھی ثابت نہیں ہوسکا کہ وزیر اعظم نے عرب امارات کی کمپنی سے کوئی تنخواہ لی۔ لیکن خبر تو یہ ہے کہ وزیر اعظم امارات کی ایک کمپنی کے ملازم رہے ہیں اور تنخواہ بھی لیتے رہے ہیں ۔ ان کے پاس ورک پرمٹ آخر کس لیے تھا۔ عدالت عظمیٰ کے جج جناب اعجاز نے تبصرہ کیا ہے کہ لندن فلیٹس کی ملکیت چھپانے کے لیے تہ در تہ آف شور کمپنیاں بنائی گئیں۔ تاہم بینج کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اس کا کوئی ثبوت نہیں کہ وزیر اعظم کسی جائداد کے مالک ہیں ۔ اگر ایسا ہے تو دو ماہ تک جے آئی ٹی کیا کرتی رہی اور وزیر اعظم بے قصور ہیں تو اس کا فیصلہ سنا دیا جائے۔ یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ حسین، حسن اور مریم نواز کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آیا جس سے لندن کے فلیٹس بھی خریدے گئے اور آف شور کمپنیاں بھی بنائی گئیں۔ جب لندن کے فلیٹس خریدے گئے تو اس وقت حسین اور حسن نواز نو عمر اور زیر تعلیم تھے۔ ان کا کوئی ذریعہ آمدنی نہیں تھا۔ چنانچہ بات پھر نواز شریف تک پہنچتی ہے اور بنیادی سوال یہی کیا جارہا ہے کہ بیرون ملک جائداد خریدنے اور کارخانے لگانے کے لیے پیسہ کہاں سے آیا اور پاکستان سے باہر کیسے گیا۔ یعنی کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟ آسان سا سوال ہے جو مرنے کے بعد بھی پوچھا جائے گا۔ مگر شاید اس کا جواب آسان نہیں سوائے یہ کہنے کے کہ ہم تو عوام کے منتخب کردہ ہیں اور ہم سے حساب وہ مانگ رہے ہیں جن کوعوام مسترد کرچکے ہیں چنانچہ ہم کیوں حساب دیں ۔ وزیر اعظم اینڈ کمپنی بار بار یہ کہہ چکی ہے کہ حساب مانگنے والے پاکستان کی ترقی کی راہ میں روڑے اٹکا رہے ہیں۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ حکمرانوں کا ذاتی کاروبارکرنا ہر طرح سے غلط ہے گو کہ یہ کام آصف زرداری بھی بطور صدرمملکت کرتے رہے ہیں۔