باپ پہ پُوت
پتا پر گھوڑا
زیادہ نہیں تو
تھوڑا تھوڑا
لیکن جے آئی ٹی کی رپورٹ کے مطابق میاں صاحب کے بیٹے اپنے والد سے بھی چار ہاتھ آگے ہیں۔ یہاں تک کہ میاں صاحب کی بیٹی مریم نواز بھی مذکورہ بالا خصوصیات میں اپنے والد پر چلی گئی ہیں۔ چشم بددور وہ بھی اپنے والد اور بھائیوں کی طرح اس اعتماد سے جھوٹ بولتی ہیں کہ سند یافتہ جھوٹے بھی ان کو اپنا استاد تسلیم کرلیں۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ مریم نواز نے کہا تھا کہ میری بیرون ملک کیا پاکستان کے اندر بھی کوئی جائداد نہیں ہے۔ لیکن جے آئی ٹی کی رپورٹ چیخ چیخ کر بتا رہی ہے کہ مریم نواز آف شور کمپنیوں کی مالک ہیں۔ میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کا دفاع پہلے بھی آسان نہ تھا مگر پاناما کے مقدمے اور جے آئی ٹی کی رپورٹ نے میاں صاحب اور ان کے خاندان کے دفاع کو کسی بھی مہذب، ایماندار، شریف النفس، قانون پسند اور محب وطن انسان کے لیے ناممکن بنا دیا ہے۔
البتہ جاوید ہاشمی تہذیب، ایمانداری، شریف النفس، قانون پسندی اور حب الوطنی کو پامال کرتے ہوئے میدان میں کود پڑے ہیں۔ انہوں نے ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ صادق اور امین تو صرف رسول اکرمؐ کی ذات تھی۔ انہوں نے مزید فرمایا کہ اگر میاں نواز شریف صادق اور امین نہیں تو اور کون صادق اور امین ہے؟ انہوں نے کہا کہ میاں نواز شریف کا احتساب ضرور ہونا چاہیے مگر جرنیلوں اور جج صاحبان کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔ انہوں نے فرمایا کہ عدلیہ نے نواز شریف کو گاڈ فادر اور مافیا کہہ کر پہلے ہی فیصلہ دے دیا ہے۔ انہوں نے شیخ رشید کے بارے میں کہا کہ وہ پہلے میرا، پھر مشرف کا اور اب عمران کا درباری ہے۔ انہوں نے کہا کہ سازشیں عروج پر ہیں۔
جاوید ہاشمی نے بالکل درست کہا ہے کہ شیخ رشید پہلے جاوید ہاشمی، پھر مشرف اور اب عمران کے ’’درباری‘‘ ہیں مگر درباری ہونے کا اعزاز صرف شیخ صاحب تک محدود نہیں۔ جاوید ہاشمی نے بھی کافی دربار بدلے ہیں۔ کبھی وہ اسلامی جمعیت طلبہ میں تھے، مگر پھر وہ اتنی ترقی کرکے جنرل ضیا الحق جیسے آمر کے درباری بن گئے۔ یہاں سے وہ میاں نواز شریف کے دربار میں پہنچے اور میاں نواز شریف کے دربار سے انہوں نے عمران خان کے دربار کی طرف چھلانگ ماری۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو جاوید ہاشمی بھی ایک طرح کے شیخ رشید ہیں اور ان کی اور شیخ رشید کی اخلاقی ساکھ میں کوئی فرق نہیں۔ مگر جاوید ہاشمی کی خود پسندی انہیں شیخ رشید کا ذکر تحصیرسے کرنے پر مجبور کررہی ہے اور جاوید ہاشمی خود اپنی تاریخ پر ایک نظر ڈالنے کے روا دار نہیں۔ یہاں پہنچ کر ہمیں یاد آیا کہ شیخ رشید ایک اعتبار سے جاوید ہاشمی سے بہتر ہیں۔ انہوں نے ’’دربار‘‘ تو بہت بدلے ہیں مگر ان پر یونس حبیب سے رقم لینے کا الزام نہیں لگا۔ البتہ جاوید ہاشمی پر یہ الزام لگ چکا ہے کہ انہوں نے یونس حبیب سے رقم اینٹھی ہے۔
یہ ایک افسوس ناک بات ہے کہ جاوید ہاشمی ڈاکوئوں کے خاندان کا دفاع کرتے ہوئے رسول اکرمؐ کے ذکر مبارک کو درمیان میں لے آئے۔ بدقسمتی سے انہوں نے بات بھی غلط کی۔ رسول اکرمؐ صرف صادق نہیں سب سے بڑے صادق تھے۔ آپؐ صرف امین نہیں تھے سب سے بڑے امین تھے۔ بلاشبہ آپؐ کی طرح نہ کوئی تھا نہ ہے نہ ہو گا۔ لیکن صادقت اور امانت کی میراث رسول اکرمؐ پر ختم نہیں ہوئی۔ خلفائے راشدین صداقت اور امانت کی بلند ترین علامتیں تھے۔ رسول اکرمؐ کے تربیت یافتہ دوسرے صحابہ کرام صداقت اور امانت کا استعارہ تھے۔ اُمت کی تاریخ میں ہزاروں اولیا، علما اور صوفیا صداقت و امانت کے پرچم کو سربلند رکھنے میں اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ اگر صداقت اور امانت رسول اکرمؐ پر ختم ہوگئی تو پھر رسول اکرمؐ پر تو نماز اور روزہ بھی ختم ہو گیا کیوں کہ رسول اکرمؐ کی طرح نہ کوئی نماز پڑھ سکتا ہے اور نہ آپؐ کی طرح روزے رکھ سکتا ہے۔ مطلب یہ کہ صداقت اور امانت کی سطح گر گئی ہے اور صداقت و امانت کے حامل افراد کم ہو گئے ہیں مگر ایسا نہیں کہ ہمارے معاشرے میں صداقت اور امانت کے پاسدار رہے ہی نہیں۔ جہاں تک میاں نواز شریف اینڈ کمپنی کا معاملہ ہے تو وہ صداقت اور امانت کی پست ترین سطح کے حامل بھی نہیں۔ مغربی ممالک میں ’’اخلاقیات‘‘ کی کوئی خاص اہمیت نہیں۔ وہاں آزادانہ جنسی تعلقات عام بات ہے مگر امریکا جیسے ملک میں بل کلنٹن کے مونیکا لیونسکی کے ساتھ تعلق کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا اور انہیں اس سلسلے میں جھوٹ بولنے کے حوالے سے طویل مقدمے کا سامنا کرنا پڑا۔ چناں چہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نواز شریف وزیراعظم بنیں گے تو ان پر بہر حال آئین کی دفعہ 62 اور 63 کا اطلاق ہوگا۔ البتہ جاوید ہاشمی کی یہ بات سو فی صد درست ہے کہ احتساب صرف نواز شریف کا نہیں ہونا چاہیے، جرنیلوں اور ججوں کا بھی ہونا چاہیے، بلکہ ہم تو کہیں گے کہ علما، اخبارات اور ٹیلی وژن چینلوں کے مالکان اور صحافیوں کا بھی احتساب ہونا چاہیے، اس لیے کہ ان طبقات میں بھی خرابیاں عام ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے بعض مالکان اور بعض صحافیوں کی ’’شہرت‘‘ مال بنانے والوں اور حکمرانوں کے جوتے چاٹنے والوں کی ہے۔ لیکن اگر اس وقت صرف نواز شریف کا احتساب ہورہا ہے تو اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ مگر نواز شریف ہی نہیں ان کا پورا کیمپ احتساب پر بلبلا رہا ہے۔ ان کی بلبلاہٹ سے ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے ان پر کوئی ظلم ہورہا ہو۔ حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ نواز شریف اور ان کے اہل خانہ نے ملک و قوم کے ساتھ جو ظلم کیا ہے وہ بے نقاب ہورہا ہے۔ کبھی الطاف حسین کے بارے میں ایک شعر کہا گیا تھا۔ شعر یہ تھا۔
سب کا حق لے کے بھی محروم نظر آتا ہے
اتنا ظالم ہے کہ مظلوم نظر آتا ہے
بدقسمتی سے آج یہی شعر میاں نواز شریف اور ان کے اہل خانہ پر بھی پوری طرح چسپاں ہورہا ہے۔ آصف علی زرداری ملک کے ممتاز ڈاکو ہیں مگر جب احتساب کے تحت یہ ڈاکو سات آٹھ سال تک جیل میں پڑا ہوا تھا تو اس وقت میاں نواز شریف سمیت کوئی نہیں کہہ رہا تھا کہ صرف آصف زرداری کا احتساب کیوں ہورہا ہے۔ باقی لوگ احتساب کی زد میں کیوں نہیں آرہے؟۔ مگر آج نواز شریف اور ان کے بچے احتساب کی زد میں آئے ہوئے ہیں تو جاوید ہاشمی سمیت کئی لوگ کہہ رہے ہیں کہ صرف میاں صاحب اور ان کے خاندان کا احتساب ہورہا ہے۔ اس امتیاز کی ایک وجہ ہے اور وہ یہ کہ
’’بد اچھا بدنام بُرا‘‘
آصف زرداری جو بھی تھے مگر وہ بدنام زیادہ تھے۔ میاں صاحب آصف زرداری سے زیادہ بد ہیں مگر وہ ذرائع ابلاغ سمیت کئی شعبوں میں اپنی سرمایہ کاری کی وجہ سے بدنام نہیں رہے۔ اب بدنامی نے ان کا گھر دیکھا ہے تو بہت سے لوگوں کو لگ رہا ہے کہ ’’انہونی‘‘ ہورہی ہے۔
جاوید ہاشمی نے فرمایا ہے کہ جب عدلیہ نے نواز شریف کو گاڈ فادر اور مافیا کہہ دیا تو انہوں نے گویا فیصلہ دے دیا۔ لیکن بدقسمتی سے یہ ججوں کی ’’مجبوری‘‘ ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایک شخص تمام شہادتوں سے گاڈ فادر اور مافیا نظر آرہا ہو تو اسے ’’عزت مآب‘‘ کہہ کر کیسے مخاطب کیا جائے؟ یہاں اس امر کی نشاندہی ضروری ہے کہ جے آئی ٹی نے جو رپورٹ مرتب کی ہے عدالت میں ابھی اس کا تجزیہ ہونا ہے۔ لیکن جو لوگ میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کی تاریخ پر نظر رکھے ہوئے ہیں انہیں محسوس ہورہا ہے کہ رپورٹ میں ’’نیا‘‘ کچھ بھی نہیں ہے۔ شریف خاندان سے جس چیز کی ’’توقع‘‘ ہے جے آئی ٹی کی رپورٹ میں وہی کچھ موجود ہے۔