فالج قابل علاج ہے‘ احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں‘ ماہرین

474

کراچی (اسٹاف رپورٹر) طبی ماہرین نے کہا ہے کہ پاکستان کی قریباً5 فی صد آبادی فالج کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ اس تناسب سے قریباً 90 لاکھ سے ایک کروڑ پاکستانی فالج کے مرض سے دوچار ہو چکے ہیں۔ہر سال ہزاروں انسان فالج کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جب کہ ان کی زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔ فالج میں مبتلا لاکھوں افراد جو معذوری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، ان کی زندگیوں میں فوری اور بہتر و مستند علاج سے بہتری لائی جاسکتی تھی۔ان خیالات کا اظہار عالمی یوم دماغ کے سلسلے میں سابق صدر پاکستان سوسائٹی آف نیورولوجی پروفیسر شوکت علی خان، صدر نیورولوجی اویرنس اینڈ ریسرچ فاؤنڈیشن پروفیسر محمد عبدالواسع شاکر، سربراہ شعبہ نیورولوجی جناح اسپتال پروفیسر خالد شیر، سربراہ شعبہ نیورولوجی بقائی یونی ورسٹی پروفیسر عارف ہریکر، صدر پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) سندھ ڈاکٹر احمد سلمان غوری، صدر الخدمت فاؤنڈیشن سندھ ڈاکٹر سید تبسم جعفری، نائب صدر پاکستان اسٹروک سوسائٹی ڈاکٹر میمونہ صدیقی اور اسسٹنٹ پروفیسر نیورولوجی و جنرل سیکرٹری ڈاکٹر عبدالمالک نے جمعرات کو نجی ہوٹل میں پریس کانفرنس کے دوران کیا۔ دماغ کا عالمی دن دماغی امراض کی آگہی، تعلیم اور تحقیق کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم ورلڈ فیڈریشن آف نیورولوجی کی جانب سے پاکستان سمیت دنیا کے 119 رکن ممالک میں منایا جاتا ہے۔ اس فیڈریشن نے آج سے چار سال قبل عالمی سطح پر دماغی امراض کے متعلق آگہی کے لیے عالمی یوم دماغ منانے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ دن دنیا بھر میں فیڈریشن کے رکن ممالک میں 22 جولائی کو ہر سال منایا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی اس حوالے سے آگہی کی بھرپور سرگرمیاں منعقد کی جاتی ہیں۔ امسال عالمی یوم دماغ کا موضوع ’’فالج‘‘ ہے۔ اس مہم کا مرکزی خیال ’’فالج دماغ کا دورہ ہے، بچائو کیجیے، علاج کیجیے‘‘ ہے۔ اس سلسلے میں ملک بھر کی سطح پر فالج اسکریننگ کیمپس، آگہی سیمینارز، پریس کانفرنس و آگہی واک کا انعقاد کیا جائے گا۔ طبی ماہرین نے بتایا کہ پاکستان آبادی کے اعتبار سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے جو قریباً 200 ملین نفوس پر مشتمل ہے۔ پاکستان میں فالج سمیت تمام غیر متعدی بیماریوں کی شرح قریباً 41 فی صد ہے۔ڈاکٹرز نے کہا کہ کچھ عرصے قبل یہ بات عمل کی حد تک زبان زد عام تھی کہ فالج ایک ایسی بیماری ہے کہ جس کا کوئی علاج نہیں۔ اگر کسی کو ہو جائے تو وہ انسان عمر بھر کے لیے معذور ہو جاتا ہے بلکہ یہ وہم تواتناعام ہوچکاہے کہ فالج کے مریض کو بالکل ڈھانپ کر، چھپا کر رکھا جاتا ہے اور تو اور کبوتر بے چارے کی شامت آتی ہے اور اس کے خون اور غالباً گوشت کو اس کا علاج تک قرار دیا جا چکا ہے۔ ان توہمات کے عملی نتائج معاشرے میں بھیانک ہیں۔ لہٰذا واضح طور پر یہ بتانا ضروری ہے کہ فالج سے بچائو اور اس کا علاج بالکل ممکن ہے اور اس قسم کا کوئی بھی عمل جو فالج کے علاج سے ہٹ کر ہو وہ درست نہیں ہے۔ طبی ماہرین نے بتایا کہ پاکستان میں پاکستان اسٹروک سوسائٹی اور نیورولوجی اوئرنیس اینڈ ریسرچ فائونڈیشن کے اشتراک جب کہ الخدمت فائونڈیشن و پیما کے تعاون سے ملک گیر سطح پر یہ آگہی فراہم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ دنیا بھر میں ہر6 انسانوں میں سے کسی ایک کو کبھی بھی کہیں بھی فالج کا دماغی دورہ ہو سکتا ہے اوراحتیاطی تدابیر اختیار کر کے ہی اس سے بچا جاسکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ فالج کا حملہ جنس کی تفریق نہیں کرتا مگر اعداد و شمار کے مطابق اس کا زیادہ تر خطرہ خواتین کو لاحق ہوتا ہے۔ پاکستان میں مختلف جائزہ رپورٹس سے حاصل شدہ اعداد و شمار کے مطابق فالج کے تمام مریضوں میں سے 63 فی صد تک مریضوں میں مختلف قسم کی طبی پیچیدگیاں پیدا ہوجایا کرتی ہیں اور قریباً 89 فی صد تک مکمل یا جزوی طور پر دوسروں کے تعاون پر زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ڈاکٹرز نے بتایا کہ فالج سے بچائو ممکن ہے۔ محتاط اعداد و شمار کے مطابق قریباً 50 فی صد فالج متاثرین کو بلڈ پریشر و تمباکو نوشی کے باعث اس مرض کو جھیلنا پڑتا ہے۔ اگر ہر فرد ان دو وجوہ پر قابو پالے تو اس کے نتیجے میں 50 فی صد تک فالج جیسے مرض سے بچا جا سکتا ہے۔ فقط اپنے بلڈ پریشر کو 140/90 سے نیچے رکھنا اور ہر قسم کے تمباکو سے پرہیز کے نتیجے میں ہم اپنے فالج کے مریضوں کی تعداد میں 50 فی صدتک کمی کر سکتے ہیں مگر نہ تو عوامی سطح پر اس کے لیے آگہی و بچائو کے اقدامات ہیں اور نہ ہی حکومتی توجہ ۔نتیجہ یہ کہ معذور افراد کی تعداد میں سیکڑوں کے حساب سے یومیہ اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ فالج ایک قابل علاج مرض ہے۔ قریباً 50 فی صدی اموات و مستقل معذوری فوری طبی علاج نہ ملنے کے نتیجے میں رونما ہوتی ہیں۔ فالج کے شدید حملے میں اموات اور معذوری کی شرح کو کم کرنے میں فالج (اسٹروک) یونٹس بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ ہمارے ملک میں ستم ظریفی یہ ہے کہ حکومتی اور نجی سطح پر اسٹروک یونٹس نہ ہونے کے برابر ہیں جب کہ ان فالج (اسٹروک) یونٹس کو ہر بڑے اسپتال میں لازمی ہونا چاہیے تاکہ کم سے کم 50 فی صد تک مریضوں کو موت یا مستقل معذوری سے بچایا جاسکے۔ ڈاکٹرز نے بتایا کہ پاکستان میں فالج کے مریضوں کی 0.01 فی صد سے بھی کم تعداد کو زندگی بچانے کی فوری ادویات (Life Saving Clot Buster) میسر ہیں۔ دنیا بھر میں وہ دوا جو فالج کے مریض کو علامات شروع ہونے کے ابتدائی 4-6 گھنٹوں میں دی جاتی ہے (RTPA) پاکستان میں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان کے تحت رجسٹرڈ نہیں، نیز مطلوبہ نیورولوجسٹ کی تعداد نہ ہونے کے باعث (چوں کہ سرکاری و غیر سرکاری اسپتالوں میں باقاعدہ نیورولوجسٹ کی آسامی مشتہر نہیں ہوا کرتی) فالج کے مریضوں کی بڑی تعداد میں مرض کی بروقت و درست تشخیص نہیں ہو پاتی۔ بد قسمتی سے معالجین کی اکثریت فالج کے مریضوں کی بحالی کی سہولت کے لییآوازنہیںاٹھاتے ان عوامل کے نتیجے میں فالج کے مرض میں مبتلا انسان دہری اذیت کا شکار ہوجاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس دن کی مناسبت سے ان کی حکومت و دیگر طب کے شعبے سے وابستہ اربابِ اختیار سے اپیل ہے کہ فالج سے بچائو کی آگہی کے اقدامات سے لے کر فالج یونٹس کے اسپتالوں میں قیام فوری علاج کی سہولت اورادویہ کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے تاکہ ہم صحت مند معاشرے کے قیام کی جانب بڑھ سکیں۔