محمد ابراہیم بزمی
ایک دعوت میں تین لوگ موجود تھے۔ باپ، بیٹا اور پوتا۔ دو سال کے بچے کا نام رافع تھا۔ یہ نام سن کر دو واقعات یاد آگئے۔ غزوہ بدر میں دو نوجوانوں کی شمولیت کے لیے ہونے والی کشتی اور مولانا مودودیؒ کا جامعہ کراچی کی طلبہ یونین کی تقریب حلف برداری میں شرکت کرنا۔
مولانا مودودیؒ بیرون ملک علاج سے واپسی کے بعد کراچی میں ٹھیرے۔ یہ 1975ء کی بات ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے انتخابات میں اسلامی جمعیت طلبہ کامیاب قرار پائی تھی۔ عبدالملک مجاہد ایک سال تک ذمے داریاں نبھا کر رخصت ہورہے تھے اور شفیع نقی جامعی نئے صدر تھے۔ دونوں کا دعویٰ تھا کہ مولانا کو جامعہ میں انہوں نے بلایا ہے۔ یوں دو لوگوں کی ایک اچھے مقصد کے لیے سبقت انہیں غزوہ بدر میں دونوجوانوں کی شرکت کے لیے کوشش کی یاد دلا گئی۔
رافع اور ثمرہ وہ خوش نصیب تھے جو چودہ سو سال قبل حجاز مقدس میں پیدا ہوئے۔ اسلام قبول کیا اور حق و باطل کے پہلے معرکے میں شرکت کے متمنی تھے۔ رسول اکرمؐ نے فوج کا جائزہ لیتے ہوئے محسوس کیا کہ ایک نوجوان دُبلا پتلا اور کمزور ہے۔ آپؐ نے شرکت سے روک دیا۔ جذبہ جہاد سے سرشار نوجوان کا کہنا تھا کہ جسے اجازت دی گئی ہے وہ اسے پچھاڑ سکتا ہے۔ حضورؐ نے مسکراتے ہوئے آزمائش کا حکم دیا۔ بظاہر کمزور نے بظاہر طاقتور کو پچھاڑ کر غزوہ بدر میں شرکت کا پروانہ حاصل کرلیا۔ ایسی ہی سبقت کی کوشش جامعہ کراچی کے پنڈال میں تقریب حلف برداری کے دوران دیکھی گئی۔ مقابل تھے عبدالملک مجاہد اور شفیع نقی جامعی۔ سوال تھا کہ مولانا کو جامعہ میں کس نے بلایا ہے؟
عبدالملک مجاہد بھائی ناظم کراچی بھی تھے اور کراچی یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے صدر بھی۔ ان کا کہنا تھا کہ جاتے جاتے ہی سہی، آنے والوں کے استقبال کے موقع پر ہی سہی، میں مولانا کو جامعہ کراچی میں بلانے میں کامیاب ہوگیا۔ مجاہد بھائی قیم جمعیت اور ناظم اعلیٰ بھی رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے کبھی بھی ’’میں‘‘ کاصیغہ استعمال نہیں کیا۔ ہمیشہ ہم اور ہم سب کہا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ میں اس اعزاز کا حق دار اپنے آپ کو قرار دیتا ہوں۔ مجاہد بھائی کی تقریر کے بعد شفیع نقی جامعی کی باری آئی۔ انہوں نے کہا کہ مولانا کو جامعہ کراچی بلانے کا اعزاز انہیں حاصل ہے۔ شفیع جامعی نے کہا کہ انتخابی مہم کے دوران میں نے کہا تھا کہ ہم مولانا کو مہمان بلائیں گے اور دنیا کی کوئی طاقت ہمیں مولانا کو دعوت دینے سے نہیں روک سکے گی۔ بہت چھوٹے منہ سے بہت بڑی بات نکلی تھی۔ یہ اللہ کا کرم ہے کہ اس نے میری لاج رکھ لی، میرا مان رکھ لیا۔ شفیع نقی جامعی نے آخر میں مجاہد بھائی سے اپنی کش مکش کو رافع اور ثمرہ کی طرح کی کش مکش قرار دیا۔ یہ تھے دو واقعات جو ایک بچے کا نام سن کر ذہن میں آئے۔ ایک طرف غزوہ بدر میں شمولیت کے لیے نوجوانوں کا جذبہ دکھائی دیتا ہے تو دوسری طرف رسول پاکؐ کے نظام کو اللہ کی سرزمین پر نافذ کرنے والی شخصیت کو اپنے تعلیمی ادارے میں بلانے کو اپنا اعزاز قرار دلوانے کے لیے دو نوجوان بڑے خوبصورت انداز میں مسابقت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
آنے اور جانے والوں کا درمیانی وقت بڑا عجیب و غریب ہوتا ہے۔ جسے سنگم بھی کہا جاسکتا ہے۔ عبدالملک مجاہد جامعہ کراچی کی ذمے داریوں سے فارغ ہوئے تو اراکین جمعیت نے انہیں ناظم اعلیٰ بنادیا۔ اجتماع ارکان و امیدواروں منصورہ لاہور میں ہورہا تھا۔ مجاہد بھائی حلف اٹھانے سے انکاری تھے۔ ظفر جمال بلوچ کے چہرے پر اطمینان تھا وہ اپنے کندھوں کو بالکل ہلکا پھلکا محسوس کررہے تھے۔ مجاہد بھائی کو بمشکل حلف برداری پر راضی کیا گیا۔ بھیگی آنکھوں، کپکپاتے ہاتھوں اور لڑکھڑاتی زبان سے مجاہد بھائی کو حلف اٹھاتے میٹرک کے ایک طالب علم نے بھی دیکھا۔ چند ماہ قبل جامعہ کراچی کے پنڈال میں شفیع نقی جامعی جیسے شاندار مقرر کا سامنا کرتے ہوئے مجاہد بھائی کی زبان کہیں نہ لڑکھڑائی۔ دوسری طرف منصورہ کا ہال تھا جہاں کانپتے اور کپکپاتے عبدالملک مجاہد بالکل مختلف نظر آرہے تھے۔ چھوٹے موٹے واقعات پر اسلامی جمعیت طلبہ کو مورد الزام ٹھیرانے والوں کو جمعیت کے اس کردار کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ سیکڑوں بگاڑ کے ذرائع، چینلز اور سوشل میڈیا کی موجودگی میں جمعیت کے کردار کے بارے میں آج بھی کہا جاسکتا ہے کہ ’’دامن نچوڑیں تو فرشتے وضو کریں‘‘۔