کراچی( اسٹاف رپورٹر)پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر ،بزنس مین پینل کے سیکرٹری جنرل اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ غیر ملکی قرضے اتارنے اور زر مبادلہ کے ذخائر مستحکم کرنے کے لیے حکومت نے گزشتہ سال دس ارب ڈالر سے زیادہ کے قرضے لیے۔ درآمدات میں مسلسل اضافے اور برآمدات میں کمی کی وجہ سے امسال بھی بھاری قرضے لیے جانے کا امکان ہے۔ میاں زاہد حسین نے ایک بیان میں کہا کہ 30جون کو اختتام پذیر ہونے والے مالی سال کے دوران 10.1 ارب ڈالر کے قرضے لیے گئے جوملکی تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے۔ اس میں سے 37 فیصد قرضے چین سے لیے گئے ہیں جبکہ باقی دیگر ذرائع سے حاصل کیے گئے جن میں 4.36 ارب کے غیر ملکی کمرشل قرضے بھی شامل ہیں۔ ان قرضوں میں سے 4.4 ارب ڈالر سابقہ قرضوں کی واپسی کے لیے ادا کیے گئے ہیں جبکہ باقی رقم دیگر مقاصد کے لیے استعمال کی گئی۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ حکومت کے ملکی و غیر ملکی قرضوں پربڑ ھتے ہوئے انحصار سے پتہ چلتا ہے کہ برآمدات، ترسیلات اور محاصل جمع کرنے کی صورتحال بہتر نہیں ہے جس کے لیے پالیسی اقدامات کی ضرورت ہے۔ حال ہی میں ختم ہونے والے مالی سال کے دوران برآمدات 20.44 ارب ڈالر کی سطح تک گر گئی ہیں، تجارتی خسارہ32 ارب ڈالر تک بڑھا گیا ہے جبکہ جاری حسابات کا خسا رہ 12.1 ارب ڈالر یا جی ڈی پی کے چار فیصد تک جا پہنچا ہے جو انتہائی تشویشناک ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق سال رواں میں غیر ملکی قرضوں اور سود کی ادائیگی کے لیے 16.2 ارب روپے کی ضرورت ہوگی جبکہ پاکستانی ماہرین کے مطابق کم از کم 19.7 ارب ڈالر درکار ہوں گے جبکہ زر مبادلہ کے ذخائر جون تک دس ارب ڈالر کی سطح تک گر سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اگر برآمدی شعبہ میں حقیقی اصلاحات نہ لائی گئیں اور برآمدکنندگان کے مسائل حل نہ کیے گئے تو صورتحال مزید مخدوش ہو سکتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ٹڈاپ سے نیم خواندہ افسران کو فارغ کرنے کے ساتھ سا تھ اس ادارے کی مکمل اوورہالنگ کی جائے اور مختلف برآمدی شعبوں کے لیے نجی شعبہ کے ساتھ مل کر اہم بر آ مدی مصنوعات کے لیے الگ الگ ایکسپورٹ پروموشن کمپنیاں بنائی جائیں۔