پروفیسر شفیع ملک
آج کل نہ صرف دنیابھر کی مزدور تحریکوں کی قیادتوں کے درمیان بلکہ سیاسی اور اقتصادی امور سے وابستہ باخبر حلقوں میں یہ امر زیربحث ہے کہ دنیا بھر کی مزدور تحریکیں اپنے مقاصد کے حصول میں مطلوبہ کامیابیاں حاصل نہیں کرسکیں۔ عام احساس یہ ہے کہ یہ ناکامی صرف ترقی پذیر ملکوں کی مزدور تحریکوںہی کے حصے میں نہیں آئی بلکہ ترقی یافتہ ممالک کی مزدور تحریکوں کا بھی مقدر بنی ہے۔ اس میں امریکہ بھی شامل ہے اور برطانیہ بھی، جاپان بھی شامل ہے اور فرانس اور جرمنی بھی۔ ہندوستان بھی شامل ہے اور پاکستان بھی۔ یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیابھر کے ممالک میں صنعتی ترقی بھی ہوئی ہے، بحیثیت مجموعی محنت کشوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور خود ٹریڈ یونینز اور ان کی ممبر شپ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ ٹریڈیونین تحریک کی مالی حیثیت بھی غیرمعمولی طور پر بہتر ہوئی ہے۔ گویا اس طرح وہ وسائل بھی زیادہ مقدار میںمیسر رہے ہیں جو اس کی کامیابی کے لوازمات میں اولیت رکھتے ہیں۔ ان سب چیزوں کے باوجود مزدور تحریکیں بحیثیت مجموعی اپنی جدوجہد کے ذریعے نہ آمدنیوں کے فرق کو کم کرسکی ہیں، نہ وسائل کی تقسیم کا کوئی بہتر اور متبادل نظام سامنے لاسکی ہیں اور نہ ہی محنت کشوں کی حقیقی قوتِ خرید (Real Purchasing Power) ہی میں کوئی قابلِ ذکر اضافے کا موجب بن سکی ہیں۔ اس لیے پوری دنیا کی مزدور تحریک کے قائدین کے سامنے یہ سوال پوری شدت کے ساتھ اُٹھ کھڑا ہوا ہے کہ جو تحریک اصلاً سماجی انصاف (Social Justice)کے اعلیٰ مقصد کو حاصل کرنے کے لیے برپا کی گئی تھی، وہ اپنے مقصد میںبری طرح ناکام کیوںہوگئی ہے؟ اپنی تمام تر تعداد اور قوت کے باوجود وہ اپنے اصل مقصد کو حاصل کیوں نہیں کرسکی ہے؟ اس موضوع پر مختلف ممالک کے دانشوروں نے غور کیا ہے اور وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ٹریڈیونین تحریکوں کی ناکامی بنیادی طور پر سرمایہ دارانہ نظام کی مرہونِ منت ہے۔ یہ نظام اپنے اندر دولت کی منصفانہ تقسیم کا مزاج ہی نہیں رکھتا بلکہ اس کے برعکس یہ اپنے تہذیبی اور معاشی نظریات کی بنیاد پر دولت کے ارتکاز کا علمبردار ہے۔ مارکیٹ کی معیشت کے اس نظام میں دولت سمٹ کر چند ہاتھوں میں محدود ہوتی چلی جاتی ہے اور حکومتوں کی مختلف قسم کی پالیسیاں اس رجحان کو تقویت پہنچانے کا باعث بنتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دولت کی فراوانی کے باوجود غربت، معاشی عدم مساوات، آمدنیوں کا فرق اور محرومیاں ایک بہت بڑی آبادی کا مقدر بن کررہی گئی ہے۔ ٹریڈیونین تحریک کو اس نظام میںرہ کر غریب محنت کشوں، کسانوں اور عام شہریوںکیلیے جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ یعنی اس کی جدوجہد کا رخ اور غالب نظام کی تگ و دو کا رخانے ایک دوسرے کے مخالف ہوتا ہے۔ ٹریڈیونین کی جدوجہد یہ ہوتی ہے کہ دولت کی تقسیم اس طرح ہو کہ معاشرے میں سماجی انصاف قائم ہوجائے۔ لوگوں کو محرومیوں سے نجات ملے اور ملک کا محنت کش پورے اعتماد اور دلچسپی کے ساتھ معاشی ترقی میںحصہ لے سکے۔ جب کہ غالب نظام کی پوری توجہ اور زور دولت کو چند ہاتھوں میںمرکوز رکھنے اور آبادی کی اکثریت کو زیادہ سے زیادہ محروم رکھنے میںصرف ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں یا تو مزدور تحریک کو غالب نظام سے ٹکرانا پڑتا ہے اور یا اپنی ممبرشپ کو غربت، ناانصافیوں، عدم مساوات اور محرومیوں کے سپرد کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ تقریبا 100 سال قبل ایسی ہی صورتحال کے خلاف محنت کشوںنے بغاوت کرکے ایک متبادل نظام کو تلاش کیا تھا اور 1917 سے لے کر 1990 تک اس متبادل نظام یعنی اشتراکیت کے تجربات کیے تھے۔ کہا گیا تھا کہ یہ نظام محنت کشوںکی جنت ہے لیکن چشمِ فلک نے دیکھا کہ 1990 کی دہائی میںخود محنت کشوں نے اس نظام کو رد کردیا۔ جاسوسی اور جبر کے ذریعے قائم اشتراکی نظام نہ صرف زمیںبوس ہوگیا بلکہ سوویت یونین کی ریاست بھی دنیا کے نقشے سے مٹ گئی اور باقی بچ جانے والی ریاستوں نے مارکیٹ اکانومی کو اس طرح گلے سے لگایا ہے کہ
من تو شدم تو من شدی، من تن شدم تو جاں شدی
تا کس نہ گوید بعد ازیں، من دیگرم تو دیگری
اشتراکی نظام بھی اپنے محنت کشوں کو محرومیوں میںدھکیلنے کی وجہ ہی سے ختم ہوا۔ اس نظام میں بھی ایک نئی کلاس پیدا ہوئی جو کمیونسٹ پارٹی کی قیادت اور اس کے چہیتے کارکنوںپر مشتمل تھی۔ باقی پوری آبادی صنعتی ترقی کے تمام ثمرات سے محروم رہی۔ سوویت یونین ہو یا پولینڈ، چیکوسلواکیہ ہو یا ہنگری، ہر جگہ ایک ہی جیسی صورت حال پائی گئی اور وہاں بنیادی حقوق کی کھلے عام سنگین خلاف ورزیاں اور خوفناک قسم کا جاسوسی نظام محنت کشوں کا مقدر بنا۔ اس نظام میں ٹریڈیونین تحریک کو حکمران جماعت کے احکامات کی تکمیل کرنے پر لگادیا گیا اور اس سے وابستہ محنت کشوںکو کولہو کا بیل بناکر رکھ دیا گیا۔ یہ کتنی بدنصیبی کی بات ہے کہ پوری 20 ویں صدی کے دوران بظاہر دو متحارب نظاموں کے اندر رہنے والے محنت کش ایک ہی قسم کے ظلم کا شکار رہے اور وہاںکی مزدور تحریکیں ان نظاموں کے اندر رہ کر اپنی ممبرشپ کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کرسکیں۔ آج کی صورتحال یہ ہے کہ پوری دنیا سرمایہ دارانہ نظام کے تحت اپنی زندگی گزار رہی ہے اور سرمایہ دارانہ نظام کا سفینہ بظاہر غرق ہوتا دکھائی نہیںدے رہا۔
ایسی صورت میں جب کہ دنیا کی تمام حکومتیں اس نظام کی غلام بن کررہ گئی ہیں اور ایک فیصد مراعات یافتہ طبقے کی خدمت گار بن کر کام کررہی ہیں تو کیوں کر توقع کی جاسکتی ہے کہ ٹریڈیونین تحریک اپنی تمام تر ترقی یافتہ شکل کے باوجود کامیابی حاصل کرسکے؟ وہ ہرجگہ پس منظر (Back Foot) میں ہے اور رعایتا زندگی گزار رہی ہے۔ یہ ہوسکتا ہے کہ خود ٹریڈیونین لیڈر شپ کا ایک چھوٹا سا ٹولہ اس مراعات یافتہ طبقے کا حصہ بن گیا ہو لیکن بحیثیت مجموعی وہ اس 99فی صد آبادی کا حصہ ہے جو دنیا کی دولت کے محض ایک فی صدپر گزارہ کررہاہے۔ اس حقیقت کو ثابت کرنے کے لیے اس سے زیادہ اور کس دلیل اور ثبوت کی ضرورت ہے کہ دنیا کی واحد سپرپاور کا حکمران اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میںکھڑے ہوکر اس بات کا اعتراف کرے کہ آج دنیا کی ایک فی صد آبادی اس کے 99فیصد وسائل پر قابض ہے اور دنیا کی باقی آبادی کے لیے صرف ایک فی صد وسائل موجود ہیں۔ یہ صورتِ حال بحیثیت مجموعی پوری دنیا کے ممالک کی ہے اور اس میںپاکستان بھی شامل ہے اور ہندوستان بھی۔ ہوسکتا ہے کہ دنیا کے دوسرے ملکوں کے لیے کوئی متبادل راستہ نہ ہو لیکن کم از کم پاکستان کے بارے میںیہ نہیںکہا جاسکتا۔ اہل پاکستان کے لیے ایک متبادل راستہ ہمیشہ موجود رہا ہے۔ اگر ملک کی مزدور برادری ٹریڈیونین تحریک کی قیادت میں اس راستے کو اختیار کرنے کا فیصلہ کرے تو بلاشبہ آج بھی یہاں کے محنت کشوںکی قسمت بدل سکتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ پوری دنیا کی مزدور تحاریک کی قیادت کے لیے اس میںایک روح افزا پیغام بھی ہوسکتا ہے۔ یہ وہی راستہ ہے جس کی طرف جناب قائداعظم نے واضح راہ نمائی کی تھی۔ انہوں نے 1948 میں اسٹیٹ بینک میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا تھا:
میں نہایت توجہ اور دلچسپی کے ساتھ آپ کے تحقیقاتی ادارے (Research Organisation) کے اس کام پر نگاہ رکھوں گا جو اسلام کے معاشی اور سماجی مقاصد کی مطابقت میں بینکنگ کے عملی کام (Banking Practices) کے حوالے سے کیا جائے گا۔ مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کے لیے ایسے لاینحل مسائل پیدا کر دیئے ہیں کہ ہم یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ شاید کوئی معجزہ ہی دنیا کو پیش آمدہ تباہی سے بچاسکے۔ وہ انسان اور انسان کے درمیان عدل قائم کرنے اور بین الاقوامی سطح پر انتشار ختم کرنے میں ناکام ہو چکا ہے۔ مغربی دنیا اپنی تمام تر صنعتی کارکردگی اور مشینی پیشرفت کے باوجود تاریخی طور پر سب سے زیادہ خراب صورت حال سے دوچار ہے۔ مغرب جن معاشی نظریات اور پروگرامز پر گامزن ہے، وہ خلقِ خدا کو اطمینان اور سکون فراہم کرنے میں ہماری کوئی مدد اور رہنمائی نہیں کر سکتا۔ ہمیں اپنا کام اپنے ہی انداز میں کرنا ہے اور دنیا کے سامنے اس معاشی نظام کو پیش کرنا ہے جو انسانی مساوات اور سماجی انصاف کے صحیح اور سچے اسلامی اصولوں اور تصورات پر مبنی ہو۔ اسی طرح ہم بحیثیت مسلمان اپنے کام (Mission) کا حق ادا کر سکیں گے اور پوری انسانیت کو امن کا وہ پیغام دے سکیں گے جو اسے تباہی سے بچا سکے اور بنی نوع انسان کی فلاح خوشی اور خوش حالی کو یقینی بنا سکے۔ (THE NATIONS VISION, Vol.7, (2003), Page 428-429, Edited by Waheed Ahmed, Ph.D., (Cantab) Quaid-i-Azam Academy)
اس لیے ہم پوری دردمندی کے ساتھ اپنے ملک کی مزدور تحریک کے قائدین کو یہ بات کہنا چاہیںگے کہ وہ ملک میںمحنت کشوںکے چارٹر اور منشوروںکے حوالے سے نظرثانی کریں اور اپنے اندر یکسوئی پیدا کرتے ہوئے اسلام کے نظام عدل کو قائم کرنے کیلئے منظم جدوجہد کریں۔ ظاہر ہے اس کام کے لیے انہیںملک کے محنت کشوںکو Educateبھی کرنا پڑے گا اور براہِ راست بھی کچھ اقدامات کرنا ہوںگے۔ مزید برآں جیسا کہ ہم بار بار کہتے چلے آئے ہیں، اپنے درمیان اتحاد کا فورم بھی تشکیل دینا پڑے گا، چاہے وہ تنظیمی اعتبار سے کتنا ہی ڈھیلا ہو اور پھر ایسی سیاسی جماعتوںکا ساتھ دینا ہوگا کہ جن کے بارے میںوہ مطمئن ہوں کہ وہ اپنی انتخابی جدوجہد کے ذریعے اس نظام کو قائم کرسکتی ہیں۔ یعنی مختلف اقدامات کے ذریعے دولت اور وسائل کی اس طرح تقسیم کہ وہ اوپر سے نیچے کی طرف منتقل ہو۔ جس کا واضح حکم خود قرآن میںموجود ہے۔ عدل و انصاف پر قائم اسی قسم کے نظام کے اندر ہی رہ کر ٹریڈیونین تحریک اپنا مثبت اور تعمیری کردار ادا کرسکتی ہے اور ملک کی ترقی اور خوش حالی میںعوام اور محنت کشوںکو موثر طور پر شریک کرکے اپنا مشن پورا کرسکتی ہے۔
(اداریہ ماہنامہ القاسم)