محمد شہزاد
زیادہ نہیں جانتا ان کے بارے میں۔ اتنا دعویٰ بھی نہیں کر سکتا کہ تھوڑا بہت جانتا ہوں۔ کبھی ملاقات بھی نہیں ہوئی، دور سے دیکھنا بھی نصیب نہ ہوا۔ کسی سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر بھی مڈھ بھیڑ نہ ہوئی۔
ان کا خاموش مداح ہوں۔ شاعر ہیں، مزاح نگار ہیں، کالم نویس ہیں، ادیب ہیں غرضیکہ ہر روپ میں با کمال ہیں۔ اربوں میں ایک ہوتے ہیں ایسے۔ ان کی تحاریر شوق سے پڑھتا اور محظوظ ہوتا ہوں۔ کمال کی شوخی ہے اندازِ میں۔ قدرت نے قلم زرخیز دیا ہے۔ ان کے پائے کے لکھاری انگلیوں پہ گنے جا سکتے ہیں۔ کافی بزرگ ہیں لیکن قلم جوان ہے۔ اچھے اچھے اس عمر میں ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔ کام میں یکسانیت آ جاتی ہے۔ مگر ان کے ہاں نت نئے خیالات کی کوئی کمی نہیں۔ مثلاً کچھ لکھنے کو نہ ملے تو کسی مداح کا تعریفی خط، نظم یا غزل ہی بطور کالم چھاپ دیتے ہیں۔ اگلے دن بھی کچھ نہ ہو تو کوئی سا پرانا کالم ’نشرمکرر‘ کی سنگھار پٹی کے ساتھ پیش کر دیتے ہیں۔
قسمت کے دھنی ہیں۔ بڑے بڑے نام گمنامی کی خاک میں مل گئے مگر انہیں پزیرائی بھرپور ملی۔ دنیا ایسے لوگوں کے آگے پیچھے ہوتی ہے مگر نہ جانے کیوں یہ ہر فرعون کے آگے سر جھکائے پائے گئے۔ ایسا کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ سفارش سے کوئی اپنی غزل یا کالم چھپوا لے تو اور بات مگر جب لکھنے والا ایسا باکمال ہو کہ دنیا مانے تو پھر درباری پن، چاپلوسی، جی حضوری، خوشامد اور تلوے چاٹنے والی حرکتیں زیب نہیں دیتیں۔ میں ایسا کروں تو دنیا توجہ ہی نہیں دے گی۔ نالائق ہوں۔ بیکار ہوں۔ کوئی سماجی حیثیت نہیں رکھتا۔ معاشرے کے ’شریف‘ لوگوں کے حق میں درباری کالموں کے ڈھیر لگا کر للوپتو کر کے ناروے میں سفیر لگ جاؤں یا پی ٹی وی کا چیئرمین بن کر خود ہی اپنے آپ کو بیک جنبش قلم اسی ادارے کا مینیجنگ ڈائریکٹر تعینات کردوں کسی کو حیرت نہ ہو گی کیوںکہ میری تو اوقات ہی یہی ہے۔ جم میں گھنٹوں گھنٹوں وزنی ڈمبل ’اٹھانے‘ کی ریاضت کی ہے۔ مسلز بنائے ہیں۔ تو اگر کسی نے اٹھانے کا الزام بھی لگایا تو یہ کہہ کر بچ جاؤں گا کہ میاں وزن اٹھانا اور اٹھک بیٹھک کرنا تو ہمارا معمول ہے۔ مجھے شرمندگی کے بجائے فخر ہو گا کہ جو مقام میں میرٹ پر کبھی حاصل نہ کرپاتا وہی خوشامدی ٹٹو بن کر باآسانی پا لیا۔
یہ تو انہیں سوچنا چاہیے کہ مجھ میں اور ان میں فرق ہے۔ سرمے والی سرکار کے دور تک تو یہ چاپلوسی کی مشقت قابلِ دفاع تھی۔ اس وقت یہ جوان تھے۔ لمبریٹا چلایا کرتے تھے۔ پیسے کی ریل پیل نہیں تھی جو آج ہے۔ اب اس عمر میں جہاں فرشتہ اجل کسی بھی لمحے آن دبوچے، ایسی کون سی مجبوری یا مصیبت آن پڑی ہے کہ آئے دن ظلِ الٰہی کی شان میں جھوٹے قصیدے گھڑے جائیں۔ پرانے وقتوں میں شرارتی جوانوں کو کہا جاتا تھا کہ ارے میاں اپنا نہیں تو بوڑھے باپ کی عزت ہی کا خیال کرلو۔ ان کے حوالے سے معاملہ الٹا ہے۔ فیس بک پر ان کے قارئین ان سے التجا کر رہے ہیں کہ بڑے میاں پوتے پوتیوں‘ نواسے نواسیوں والے ہو گئے ہو۔ اپنا نہیں تو اپنی اولاد ہی کا خیال کر لو! ان ہی سے کچھ سیکھ لو۔ خوشامد تو وہ بھی کرتے ہیں مگر عزت نفس کو اس درجے نہیں گراتے۔
کیا کچھ نہیں ان کے پاس؟ دولت، عزت، شہرت۔ سب کچھ ہے۔ کیوں آخری دو انمول خزانوں کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں؟ دل سے چاہنے والے ان کا دفاع کرنے کے قابل بھی نہیں رہتے کیوںکہ خوشامد اپنی معراج پر ہوتی ہے۔ مثلاً کون بقراط اس پیراگراف کا دفاع کر سکے گا:
’پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد اس بات پر مکمل یقین رکھتی ہے کہ اگر نواز شریف کی حکومت کو کچھ ہوتا ہے یا اسے کمزور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو ملک ایک بار پھر بہت پیچھے چلا جائے گا۔ گزشتہ چند روز سے مجھے ہزاروں فون اور میسجز موصول ہورہے ہیں جن سے پاکستانی عوام کی بے چینی کا اظہار ہوتا ہے۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ نواز شریف سے صرف سیاسی سطح پر نہیں ذاتی سطح پر بھی بہت محبت کرتے ہیں، شاید اس کی وجہ ان کی طبیعت کا انکسار، ان کے خاندان کا مشرقی روایات سے جڑا ہونا، ان کی خدا ترسی اور دوسری انسانی صفات جن کی وجہ سے پاکستانی عوام کی ایک بہت بڑی تعداد انہیں ایک ہیرو کے روپ میں دیکھتی ہے۔ اخبارات اور میڈیا سے مختلف النوع خبریں اور تجزیے دیکھنے والے ایک اسی طرح کے عاشق کا فون مجھے لاڑکانہ سے آیا، آپ یقین کریں اس کی آواز بھرائی ہوئی تھی اس نے بتایا کہ وہ تین دنوں سے سو نہیں سکا۔ میں نے اسے کہا ’’دوست، مسئلہ حل بھی جاگتے رہنے ہی سے ہونا ہے، اگر تو نے آنکھ جھپکی تو منظر مزید ڈراؤنا ہوجائے گا۔ جولائی 14 دل ہی دل میں کڑھتے ہیں ان کو ہر تیسرے چوتھے دن اپنے بلند مقام کو چھوڑ کر پستی کے جوہڑ میں فخر سے غوطہ لگاتے دیکھتے۔ بہت سے ’صالح‘ اور زندہ ’جاوید‘ بھی ایسے جوہڑوں میں رہتے ہیں لیکن کون ان کی پروا کرتا ہے جن کا مقام ہی یہی ہو!
پر ان کا مقام تو بہت بلند ہے مگر انہیں خود اس سے گرنا اچھا لگتا ہے۔ لیکن اس بار ’شریف‘ لوگوں نے ان کے ساتھ بھی ہاتھ کر دیا۔ ظلِ الٰہی کی شان میں اب کہ انہوں نے ایسے ایسے قصیدے گھڑے کہ مداحوں اور حاسدین دونوں کو یقین ہو چلا کہ اس بار یقینا بہت ہی بڑی ’خلعت‘ سے نوازے جائیں گے۔ کیانی صاحب کی سبک دوشی قریب تھی ان دنوں۔ لگ ایسا رہا تھا کہ اس بار ’درباری سفیر‘ نہیں آرمی چیف لگیں گے مگر لوہاروں نے جب ایک لگائی لوہار کی تو سو سناروں کی چھٹی ہوگئی۔ ملا کیا۔ پی ٹی وی کی سربراہی۔ ٹھینگوا! اور جب سربراہ بن کر خود ہی اپنے آپ کو managing director بنایا تو حزب اختلاف نے ’چور چور‘ کا شور بلند کر دیا۔ آقاؤں کے حکم پر استعفا دینا پڑا۔ کیا نیک نامی پائی؟
ویسے ظلِ الہی کا یہی ایک فیصلہ انہیں تاریخ میں سرخرو کرے گا۔ شہنشاہِ معظم نے بہت سوچ سمجھ کے ادارہ چنا ان کے واسطے۔ پرائیویٹ ٹی وی چینلوں پہ انتہائی گھٹیا قسم کا پھکڑپن جاری تھا۔ ان کے آنے سے پی ٹی وی کے مسخرے پن کا معیار بلند ہوا جس کا ایک مظاہرہ سب نے مزاحیہ مشاعرے کی صورت میں عید کے دن دیکھا۔ شاعر جواد احمد جواد نے جس طرح دہشت گردی، ڈرون حملوں کا نشانہ بننے والے پشتون بھائیوں پر جگتیں کسیں اور لوگوں سے داد سمیٹی اس کا سہرا اور کس کو جا سکتا ہے؟ موصوف کو شاہ کے تخت جانے کا خوف سونے نہیں دیتا۔ خوف دراصل اپنی چھوٹی سی گدی کے جانے کا ہے۔ ظلِ الٰہی گئے تو ان کا بھی بوریا بسترا گول ہو جائے گا۔ اور یہ جملہ محفوظ کر لیں کہ تاریخ انہیں عظیم لکھاری کے نام سے نہیں ایک لازوال چاپلوس کے طور پر یاد رکھے گی۔