سال 2016-17 میں کل برآمدات 20.45 ارب ڈالر کی ہوئیں جب کہ درآمدات کے لیے 53 ارب ڈالر کی ادائیگیاں کی گئی ہیں۔ برآمدات کو بڑھانے کے سلسلے میں حکومت نے 180 ارب روپے کا ایک پیکیج متعارف کروایا جس میں برآمد کنندگان کو مختلف رعایتیں دی گئی تھیں مگر اب تک اس پیکیج کا کوئی فائدہ نہیں ہوا اور برآمدات میں 1.63 فی صد کمی ہوئی ہے۔ برآمدات کے ضمن میں اہم ترین شعبہ ٹیکسٹائل ہے اور اس شعبے سے متعلق مختلف تنظیمیں اور سب سے بڑی نمائندہ تنظیم اپٹما (آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن) کا حکومت پر الزام یہ ہے کہ وہ ٹیکسٹائل سیکٹر کو نظر انداز کررہی ہے اور جو مسائل اس شعبے کو برآمد کے سلسلے میں درپیش ہیں ان کو حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ بجلی اور گیس کی سپلائی کا مسئلہ کسی حد تک حل ہوگیا ہے مگر اصل مسئلہ پیداواری لاگت ہے اور اس کی بنیادی وجہ مختلف قسم کے ٹیکسز ہیں جو اس صنعت پر نافذ ہیں چناں چہ ٹیکسٹائل سیکٹر کا موقف یہ ہے کہ جب تک پیداواری لاگت میں کمی نہیں ہوتی برآمد میں اضافہ ممکن نہیں۔ دوسری طرف مختلف قسم کی مشنری اور گیس کی درآمد کے باعث کل درآمدی بل 53 ارب ڈالر کو پہنچ گیا ہے اور اس طرح تجارتی خسارہ 32.57 ارب ڈالر ہے۔
دوسرا معاملہ بیرونی قرضوں کا ہے۔ سال 2016-17 کی تیسری سہ ماہی تک بیرونی قرضوں کا حجم 75.74 ارب ڈالر کا ہوچکا تھا جب کہ بیرونی اور اندرونی قرضوں کا حجم 21 ٹریلین روپے ہوچکا ہے جو پاکستان کے مجموعی قومی پیداوار کا آئی ایم ایف کے مطابق 66.6 فی صد ہے۔ حال ہی میں قومی اسمبلی کے ایک سوال کے جواب میں وزارت خزانہ نے بتایا کہ مسلم لیگ نواز کے عرصہ حکومت میں مجموعی قرضوں میں 35 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ موڈیز انوسٹرز سروسز نے یہ پیشگوئی کی ہے کہ بیرونی قرضوں کا حجم جلد ہی 79 ارب ڈالر ہوجائے گا۔ ان بھاری بھرکم بیرونی قرضوں کے باعث حکومت ہر سال ایک خطیر رقم قرض اور سود کی ادائیگی کی صورت میں خرچ کرتی ہے۔ سال 2016-17 میں حکومت نے اس مد میں 5.2 ارب ڈالر ادا کیے ہیں جو کرنٹ اکائونٹ خسارہ میں اضافے کی اہم وجہ ہے۔ اسی لیے آئی ایم ایف نے اپنی حالیہ رپورٹ میں پاکستانی معیشت کے بارے میں جو اہم نکات بیان کیے ہیں ان میں سی پیک (CPEC) کو پاکستانی معیشت کے لیے خوش آئند قرار دیا ہے ساتھ ہی اس طرف بھی خبردار کیا ہے کہ کرنٹ اکائونٹ میں بڑھتا ہوا خسارہ پاکستانی معیشت کے لیے خطرناک ہوسکتا ہے۔
آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ کرنٹ اکائونٹ خسارہ جی ڈی پی (GDP) کا 3 فی صد ہوچکا ہے جس کی بنیادی وجہ مشنری اور گیس کی درآمد ہے اور اسی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر میں 1.5 ارب ڈالر کی کمی ہوئی ہے۔
زرمبادلہ کے حصول اور اخراج میں بیرونی سرمایہ کاری اہمیت رکھتی ہے جس میں ایک تو براہ راست بیرونی سرمایہ کاری (FDI) ہے جس میں غیر ملکی کاروباری ادارے اور کمپنیاں پاکستان میں اپنے منصوبے شروع کرتے ہیں یا کوئی چلتا ہوا کاروباری ادارہ خرید کر اس کی انتظامی اور ٹیکنیکل ذمے داریاں سنبھال لیتے ہیں، سال 2016-17میں اس ضمن میں پاکستان میں 2.41 ارب ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری ہوئی ہے۔ اس میں سب سے اہم چین ہے جس میں سی پیک کے سلسلے میں مختلف چینی کمپنیاں اور ادارے پاکستان میں ڈالر لارہے ہیں لیکن پاکستان کے معاملے میں یہ کوئی بہت اطمینان بخش معاملہ نہیں ہے۔ جو چینی کمپنیاں اور ادارے آج ڈالر لارہے ہیں وہ اپنے منافع کے لیے ایسا کررہے ہیں۔ دو تین سال بعد یہی ادارے ڈالر یہاں سے بھیجنا شروع کردیں گے جس سے کرنٹ اکائونٹ خسارہ مزید بڑھ جائے گا۔
بیرونی سرمایہ کاری کی دوسری شکل وہ ہے جس میں بیرونی سرمایہ کار اسٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری کرتے ہیں لیکن یہ ایک غیر مستحکم اور عارضی سرمایہ کاری ہوتی ہے کہ جب چاہے اپنے شیئرز فروخت کرکے یہ سرمایہ کار ڈالر بیرون ملک بھیج دیتے ہیں اسی مد میں سال 2016-17 میں 531 ملین ڈالر پاکستان سے باہر گئے ہیں۔
جہاں تک ترسیلات زر کا معاملہ ہے خلیجی ممالک سے پاکستانی 20 ارب ڈالر سے زیادہ ہر سال پاکستان بھیج رہے تھے جیسے جیسے خلیجی ممالک میں روزگار کے مسائل میں اضافہ ہوگا، نئے نئے ٹیکس لگیں گے ترسیلات زر میں کمی ہوتی جائے گی جس سے کرنٹ اکائونٹ پر دبائو بڑھے گا۔
فی الحال حکومت پاناما کیس میں گھری ہوئی ہے، یہ وقت بتائے گا کہ پاناما کیس کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے، ہوسکتا ہے اس کالم کے چھپنے تک کوئی صورت حال سامنے آجائے۔ سیاسی صورت حال کوئی بھی ہو معاشی صورت حال بھی بحران میں گھری نظر آتی ہے۔