چھلنی بھی بول پڑی

221

Edarti LOHکراچی کے حلقے پی ایس 114میں ضمنی انتخاب کا نتیجہ پیپلزپارٹی کے سعید غنی کے حق میں رہا اور ایم کیو ایم پاکستان کی طرف سے دھاندلی کا الزام الیکشن کمیشن نے مسترد کردیا۔ یہ حلقہ 50سال بعد پیپلز پارٹی کے ہاتھ لگا ہے۔ تاہم حیرت کی بات یہ ہے کہ دھاندلی اور جعلی ووٹ بھگتانے میں کمال کے درجے کو پہنچی ہوئی ایم کیو ایم آج خود اپنے ساتھ دھاندلی ہونے کا شور مچا رہی ہے۔ کیا یہ مکافات عمل ہے یا تقسیم در تقسیم کے بعد اب ایم کیو ایم من مانی کرنے اور جعلی ووٹ بھگتا کر انتخابات جیتنے کے قابل نہیں رہی۔ ماضی میں تو ایسا بھی ہوتا رہا ہے کہ انتخابی عمل شروع ہونے سے پہلے ہی ایم کیو ایم کے حق میں ووٹوں سے بھرے ہوئے ڈبے پکڑے گئے لیکن ہوا کچھ نہیں ۔ انتخابی عمل ختم ہونے کے بعد رات گئے تک ٹھپے لگتے رہے اور کوئی کچھ نہیں کرسکا کیوں کہ شہر پر خون آشام مسلط تھے۔ الطاف حسین کا خوف ختم نہیں ہوا لیکن بہت کم ہوگیا ہے ۔ اب وہ لندن سے صرف دھمکیاں اور گالیاں ہی دے سکتے ہیں ۔ ادھر پیپلز پارٹی ایک نشست جیت کر اس گمان میں ہے کہ وہ آئندہ کراچی میں بھی اکثریت حاصل کرلے گی، ایسا ہوسکتا تھا بشرطیکہ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے کراچی پر بھی تھوڑی سی توجہ دی ہوتی۔ حلقہ 114 بھی اس کی توجہ سے محروم رہا لیکن عوام نے سعید غنی کو کامیاب کرادیا۔ سندھ حکومت نے کراچی ہی کیا لاڑکانہ اور بے نظیر آباد تک کو لاوارث چھوڑ رکھا ہے۔ کراچی پر برسوں تک مسلط رہنے والی ایم کیو ایم نے بھی مہاجروں کے نام پر ووٹ لے کر مہاجروں ہی کا استیصال کیا اور ایک کام بھی ایسا نہیں کیا جس پر وہ فخر کرسکے۔ مہاجروںکو دوسری قومیتوں سے لڑایا پھر مہاجر کو مہاجر سے لڑایا گیا اور ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی۔ اس کا ایک ٹکڑا ایم کیو ایم حقیقی کے نام سے ’’ ہر چند کہیں کہ ہے ، نہیں ہے ‘‘ کی کیفیت میں ہے۔ عامر اور آفاق نے الطاف حسین سے بغاوت کر کے ایجنسیوں کی سرپرستی میں اپنا الگ گروپ بنا تو لیا تھا مگر ایجنسیاں ناکام رہیں۔ عامر خان تو توبہ کر کے پھر ’’بھائی‘‘ سے آملے اور جیل سے باہر آگئے۔ آفاق احمد اب تک اپنی ڈفلی بجا رہے ہیں لیکن کوئی سن نہیں رہا۔ انہوں نے اپنے کئی پیغامات میں مہاجروں کو متحد کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے ۔ گزشتہ جمعہ کو بھی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے آفاق احمد کا کہنا تھا کہ ’’ مہاجر قوم کو اپنے مسائل کے حل کے لیے اتحاد کا ثبوت دینا ہوگا ۔‘‘ انہیں شاید یادنہیں رہا کہ سب سے پہلے تو وہ ہی ڈیڑھ اینٹ کا بیت الحمزہ لے کر الگ ہوگئے تھے اور ایم کیو ایم حقیقی بنا لی تھی ۔لیکن ایجنسیوں کی راہ کی گرد بن کر رہ گئے۔ ایجنسیوں نے بیک وقت کئی گھوڑوں پر دائو لگایا ہوا ہے اور بڑی باریکی سے جائزہ لیا جارہا ہے کہ کون سا گھوڑا لنگڑا نہیں ثابت ہوگا۔ فاروق ستار یا مصطفی کمال، کس کو آگے کیا جائے، ابھی سیاسی استخارہ کیا جارہا ہے۔ منفی الطاف کی کوشش تو بڑی حد تک کامیاب ہوگئی ہے۔ اب پیپلز پارٹی بھی کراچی کی دعویدار ہے اور موجودہ صورت حال میں کام مشکل تو ہے، ناممکن نہیں۔