نیکی کے بیج

226

شازیہ نعمان
تین سال پہلے میری ایک خاتون سے ملاقات ہوئی تھی بہت خوش تھیں کہنے لگیں میں نے اپنے بیٹے کا رشتہ کردیا ہے۔ لڑکی نے ’’BS‘‘ کیا ہوا ہے اور بلا کا confidence ہے۔ اس ملاقات کے ڈیڑھ سال بعد اُن کے بیٹے کی شادی ہوگئی۔ کل ایک تقریب میں اتفاقیہ اُن کی confident بہو سے ملاقات ہوئی میں نے خیر خیریت پوچھی تو جواب ملا ویسے تو سب ٹھیک ہے بس میرے شوہر کے سر میں ایک دانہ نکلا اور اُس کا آپریشن ہوا ہے (مذاق اُڑانے والے انداز میں کہنے لگی) کہ ’’کالا دماغ‘‘ نظر آرہا تھا۔ کالا دماغ میں سوچ میں پڑ گئی کہ تین سال پہلے جس confidence کا ذکر وہ خاتون کررہی تھیں اور سرشار تھیں وہ confidence آج بولتا ہوا نظر آرہا ہے۔
ایک وقت تھا جب لوگ نیک سیرت، عبادت گزار، خوش اخلاق بہو کی تلاش میں ہوتے تھے اور لوگوں کے گھروں میں خوشیاں اور رونقیں ہوتی تھیں آج لوگ ڈگری ہولڈر بہو کی تلاش میں ہیں۔ یہ بات نہیں ہے کہ ڈگری ہولڈر لڑکیاں سگھڑ اور بااخلاق نہیں ہوتیں، بات دراصل یہ ہے کہ جہاں ڈگری کو ہی سب کچھ سمجھ لیا جاتا ہے اور تربیت کو ترجیح نہیں دی جاتی وہاں صرف ڈگری ہی رہ جاتی ہے۔ اگر یہ دونوں چیزیں ساتھ ہوں تو پھر بہو کو چاند لگ جاتا ہے اور گھر جنت بن جاتے ہیں۔
ایک خاتون کی بیٹی سے رمضان کے مہینے میں کسی نے پوچھا کہ کونسا پارہ چل رہا ہے تو اس کی ماں نے ہاتھ سے پانچوں انگلیاں کھول کر اشارہ کیا کہ اُن کی بیٹی ہی دیکھ سکے اور بیٹی نے فوراً جواب دیا پانچواں پارہ چل رہا ہے۔ نپولین نے کہا تھا کہ تم مجھے بہترین مائیں دو میں تمہیں بہترین قوم دوں گا۔ حقیقت ہے کہ اگر ماں کا کردار مضبوط ہوگا تو اُس کی اولاد خاص کر بیٹی ایک بہترین نمونہ بن کر سامنے آئے گی۔ آج کل مائیں اپنا وقت اولاد کو دینے کے بجائے TV، TAB، انٹرنیٹ اور موبائل پر صرف کردیتی ہیں تو کتنا وقت اپنی اور اپنی اولاد کی اصلاح پر لگائیں گی۔
ایک اور ملاقاتی خاتون کی شکایت ہے کہ دو بہوئیں ہیں اور اپنے گھر کا کام جلدی جلدی اُلٹا سیدھا کرکے Tab لے کر بیٹھ جاتی ہیں۔ پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا، کہنے لگیں میں اسکول میں پڑھاتی تھی گھر آکر سارا کام خود کرتی تھی پھر بھی سلائی کڑھائی کا ٹائم ہوتا تھا۔ اب کسی کے پاس کسی کے لیے وقت نہیں۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ پہلے بھی دن رات 24 گھنٹوں پر مشتمل تھے اور آج بھی اتنا ہی وقت دن رات کے لیے ہے۔ پہلے کھانوں میں مسالحے ہاتھ سے پیس کر ڈالے جاتے تھے، کپڑے ہاتھ سے دُھلتے تھے اب حال یہ ہے کہ مشینوں سے کام ماسیوں سے لیا جاتا ہے، پھر بھی مائیں اپنے بچوں کو نہ وقت دیتی ہیں نہ تربیت کرتی ہیں۔ اور کل یہی اولاد انہیں اولڈ ہائوس میں ڈال دیتی ہے۔ ہمیں اس بارے میں اقدامات کرنے ہوں گے اور بچوں کی تربیت بچے کی پیدائش سے پہلے ہی شروع کرنی ہوگی کیوں کہ تعلیم بغیر تربیت کے ادھوری ہے۔ مائیں اگر بہترین نمونہ بنیں گی تو یقینا اولاد ان کے نقش قدم پر چلے گی۔ بچے جب مائوں کو جھوٹ بولتے ہوئے، غیبت کرتے ہوئے اور فضولیات میں وقت برباد کرتے ہوئے دیکھتے ہیں اور بزرگوں کی نافرمانی کرتے ہوئے تو وہ سب کچھ وہی سیکھ جاتے ہیں اور پھر بڑے ہو کر ویسا ہی کرتے ہیں۔ ہم یاد رکھیں جو بچپن میں سیکھا ہوتا ہے دماغ میں بیٹھ کر پتھر پر لکیر بن جاتا ہے۔
جس طرح ایک باغبان زمین میں بیج ڈال کر بھول نہیں جاتا بلکہ مسلسل باغ کی دیکھ بھال کرتا ہے، زمین کو نرم کرتا رہتا ہے، پانی ڈالتا ہے، گلے سڑے پتے فوراً پودوں سے الگ کرتا ہے، پھول اور پھل کا خیال رکھتا ہے، اسی طرح ایک ماں کی کوشش ہونی چاہیے کہ اپنے بچوں کے دل کی زمین کو نرم کرکے اس میں نیکی کے بیج بوئیں، ان شاء اللہ یہی نیکی کے پھل کل آخرت میں ہمارے لیے اور ہمارے بچوں کے لیے جنت کے باغ بن جائیں گے۔ کوشش شرط ہے۔