انصاف کی فراہمی بھی صدقہ ہے

229

zc_Nasirخوش بخت ہیں وہ لوگ جنہیں مسند انصاف پر براجمان ہونے کی سعادت نصیب ہوتی ہے۔ اسلامی دانش کے مطابق انصاف فراہم کرنا بھی صدقہ ہے مگر موجودہ نظام عدل میں صدقے کی کوئی اہمیت نہیں۔ وقت گزارنا نصب العین بن جائے تو ذمے داری بے معنی فعل بن جاتی ہے۔
جعل سازی کے ایک مقدمے میں جسٹس مجاہد مستقیم صاحب نے 14-3-17 کو اپنے دست مبارک سے 15-6-17 کی پیشی عنایت فرمائی۔ مدعا علیہ مقررہ پیشی پر حاضر ہوا تو معلوم ہوا کہ پیشی ملتوی ہوگئی ہے۔ اگلی پیشی کے بارے میں پوچھا گیا تو کہا گیا کہ چھٹیوں کے بعد پیشی لگے گی، رمضان المبارک اور عید کی چھٹیوں کے بعد ہائی کورٹ بہاولپور کے دربار شریف پر حاضر ہوئے تو بتایا گیا کہ ستمبر میں حاضری لگے گی گویا ایک ماہ رمضان المبارک اور دو ماہ سالانہ رخصت کے بعد حاضری لگے گی، گویا جون جولائی اور اگست کے بعد حاضری کا فیصلہ ہوگا۔ عدلیہ کے روایتی نظام کے تحت توقع کی جاسکتی ہے کہ ستمبر میں لگنے والی حاضری نومبر میں ہوگی اور پھر حسب روایت پیشی دی جائے گی یا لیفٹ اوور کا ہتھوڑا برسایا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ جب پیشی سات آٹھ ماہ بعد ہو اور پھر بھی کوئی پیش رفت نہ ہو تو مقدمات کے انبار کیوں نہ لگیں گے۔
یہ تسلیم کرنے میں کوئی ہرج نہیں کہ عدالتوں میں جج صاحبان کی کمی ہے جس کے باعث مقدمات کے فیصلے کرنے میں تاخیر ہوتی ہے اگر ہم عدلیہ کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت منکشف ہوگی کہ جج صاحبان اسی طرح معاملات چلاتے رہے تو فوری انصاف کا خواب کبھی پورا نہ ہوگا۔ سبھی جانتے ہیں کہ سال میں 365 دن ہوتے ہیں مگر اس حقیقت پر کوئی غور نہیں کرتا کہ عدالتیں سال میں کتنے دن کام کرتی ہیں، ہم بتاتے ہیں کہ ہائی کورٹ سال میں کتنے دن کام کرتی ہے۔ 365 دنوں میں صرف 160 دن یہ ہے ہماری اعلیٰ عدلیہ کی کارکردگی۔ ہمارے مسائل کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ مسائل کے حل کے ذمے دار ہیں وہ مسائل کا اعتراف تو کرتے ہیں مگر اس کے سدباب کے لیے کچھ نہیں کرتے، سیاست دان اور حکمران طرز حکمرانی کی خامیاں تو بتاتے ہیں مگر ان کی بہتری کے لیے غور و خوض کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے، نظام عدل کی خرابیوں کا اعتراف تو کیا جاتا ہے مگر ان پر قابو پانے کے لیے کوئی تدبیر نہیں کرتے، حکمران یہ ہونا چاہیے، وہ ہونا چاہیے، ہم یہ کریں گے، ہم وہ کریں گے کا راگ ہی الاپتے رہتے ہیں۔
جج صاحبان فرائض منصفی کو کتنا وقت دیتے ہیں اس پر غور و خوض کیا جائے تو مقدمات کے انبار کی وجہ سمجھنے میں کوئی دشواری حائل نہیں ہوگی۔ سال میں 365 دن ہوتے ہیں مگر جج صاحبان بمشکل 160 دن کام کرتے ہیں، جج صاحبان کو دو ماہ کی سالانہ رخصت ملتی ہے دو ماہ کی رخصت تو فوج، رینجرز اور پولیس کو بھی ملتی ہے اگر جج صاحبان کی طرح ان ادارے کے لوگوں کو بھی جولائی اگست میں چھٹی پر بھیج دیا جائے تو کیا ہوگا، بدنظمی ہوگی ناں! عدلیہ میں بدنظمی کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ جج صاحبان کو فوجیوں کی طرح یکے بعد دیگرے رخصت کے بجائے جولائی اگست میں عدالتوں کو تالے لگادیے جاتے ہیں جب تک عقلوں پر پڑے یہ تالے نہیں کھولے جاتے فوری انصاف کی رٹ تو لگائی جاسکتی مگر انصاف کی دیوی کی الجھی لٹ نہیں سلجھائی جاسکتی۔